About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, April 12, 2011

جسٹس ڈوگر غلطی تسلیم کر کے گھر بیٹھیں


| ـ 29 اکتوبر ، 2009
خلیفہ نے حضرت امام ابوحنیفہ کو قاضی القضاء کا منصب پیش کیا۔ حضرت امام نے کہا میں اس منصب کا اہل نہیں ہوں۔ خلیفہ نے غصے سے کہا ’’آپ جھوٹ بولتے ہیں‘‘ امام کا جواب تھا ’’جھوٹا شخص قاضی کیسے بن سکتا ہے‘‘ اس پر مشتعل ہو کر خلیفہ منصور نے ان کو قید کر دیا۔ یہ کسی بھی چیف جسٹس کی آمر حکمران کے سامنے پہلی ناں تھی۔ تھوڑے فرق کے ساتھ اُن کو قاضی کے منصب پر بٹھایا جا رہا تھا۔ جسٹس افتخار سے منصب چھڑایا جا رہا تھا۔ ابوحنیفہؒ پر قاضی القضا کا منصب قبول کرنے کے لئے دبائو ڈالا جاتا رہا لیکن وہ ظالمانہ دور میں منصف کے جلیل القدر منصب کی تذلیل برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ امام نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ لیکن آمریت کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے رہے۔ آج جسٹس افتخار محمد چودھری نے بہت سے مصائب برداشت کر کے پاکستان کی عدلیہ کو واقعی افتخار بخشا ہے۔ لیکن عدلیہ کو سب سے زیادہ نقصان خود عدلیہ نے ہی پہنچایا ہے۔ حکمرانوں سے بھی زیادہ لالچ اور دبائو میں ایسے ایسے فیصلے کر دئیے گئے جو ہماری تاریخ کے سیاہ فیصلے تو بنے ہی۔ صادر فرمانے والوں کی نسلوں کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تین فیصلوں نے تو ملک کی تاریخ اور جغرافیہ تک بھی بدلنے کی بنیاد رکھ دی۔ 
(1) 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی دستور ساز اسمبلی برطرف کر دی تو اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے سندھ چیف کورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ فیصلہ ان کے حق میں ہوا تو حکومت سپریم کورٹ چلی گئی جسٹس منیر کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو آئینی قرار دیدیا۔ نظریہ ضرورت کی یہیں سے ابتدا ہوئی۔ جسٹس منیر ذرا جرأت دکھاتے دبائو میں نہ آتے تو بعد ازاں سکندر مرزا کو مارشل لاء کی جرأت ہوتی نہ ایوب خان اقتدار پر شب خون مارتے۔ جمہوری ادارے ترقی کرتے رہتے تو یقیناً پاکستان کا ایک بازو کٹ کر الگ نہ ہوتا۔ جسٹس منیر کے فیصلے کے بعد طالع آزمائوں کے لئے مہم جوئی کے راستے کھل گئے۔ 
(2) ظفر علی شاہ کیس میں جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 1992ء کے اقدام کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں 12 رکنی بنچ نے ایسا فیصلہ دیا جسے قانون دان غلط اور شرمناک قرار دیتے ہیں۔ 12 مئی 2000ء کو سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ’’مشرف کا عہدہ آئینی ہے‘ انہیں ہٹایا جانا غیر آئینی تھا۔ نواز دور میں ون مین رول تھا۔ وزراء اور ارکانِ اسمبلی کرپشن میں ملوث تھے۔ عدلیہ کی تضحیک کی گئی۔ فوجی اقدام جائز ہے جنرل مشرف 3 سال میں ایجنڈا مکمل کریں۔ چیف ایگزیکٹو آئین میں ترمیم کرنے کے مجاز ہیں۔ فوج نے ماورائے آئین اقدام کرتے ہوئے نظریہ ضرورت کے تحت کارروائی کی۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا مقصد ملک کو مارشل لاء سے بچانا تھا‘‘ بنچ کے دیگر جج‘ جسٹس بشیر جہانگیری‘ اعجاز نثار‘ عبدالرحمن خان‘ شیخ ریاض احمد‘ چودھری عارف‘ منیر اے شیخ‘ عزیز خان‘ ناظم حسین صدیقی‘ افتخار محمد چودھری (موجودہ چیف جسٹس) قاضی فاروق اور جسٹس بھگوان داس تھے۔ جس تقریب میں جنرل مشرف کی کھال اتارنے کی بات کی گئی اس میں جسٹس ارشاد حسن خان کے بارے میں بھی جارحانہ ریمارکس دئیے گئے۔ جن پر مشرف کے پٹھو تلملا اٹھے تھے اور آج اس تلملانے پر شرمندہ ہیں۔ مشرف کے وکلا نے مشرف کے اقدامات کو آئینی قرار دینے کی استدعا تو کی تھی آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں مانگا جو سپریم کورٹ نے خود سے تفویض فرما دیا جس کے انعام میں جسٹس ارشاد کو ریٹائرمنٹ پر چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے سرفراز کر دیا گیا۔ 
(3) 3 نومبر کو مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تو جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں اسی شام اسے غیر قانونی قرار دیدیا گیا اور ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے منع کر دیا۔ اس کے باوجود جسٹس ڈوگر نے بطور چیف جسٹس اور کئی دیگر ججوں نے حلف اٹھا لیا۔ 60 ججوں نے انکار کر دیا۔ عدلیہ دوبارہ بحال ہوئی تو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے گئے۔ جسٹس ڈوگر کے سوا تمام ججوں نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ جسٹس ڈوگر نے عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچنے کے لئے کافی عرصہ درکار اور جج صاحب سے اعلیٰ اور ’’فول پروف‘‘ کردار کی توقع ہوتی ہے۔ جسٹس ڈوگر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں جسٹس افتخار کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ کے فیصلے کی خبر 4 نومبر کو اخبارات پڑھ کر ہوئی۔ کیا عجب استدلال ہے! 3 اور 4 نومبر کی درمیانی رات پوری قوم نے بے چینی اضطراب اور کرب میں گزاری ڈوگر صاحب حلف اٹھا کر سو گئے!ڈوگر صاحب کے حلف اٹھانے سے عدلیہ کا وقار خاک میں مل گیا۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 60 کے قریب ججوں کو گھروں میں قید کر دیا گیا۔ آمریت نے جس طرح چاہا فیصلے سنائے گئے۔ ایمرجنسی کو حلال قرار دیا‘ ان کو وردی سمیت الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ 
ضیاء الحق کے مارشل لا کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ نے ہی تحفظ فراہم کیا تھا۔ لیکن جس قدر نقصان جسٹس منیر‘ جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس ڈوگر نے عدلیہ کو پہنچایا اس کی تلافی ناممکن ہے۔ ان میں سے عدلیہ کا سب سے زیادہ بیڑہ کس نے غرق کیا اس کا تعین عدلیہ کرے یا مورخ کو کرنا ہو گا۔ تاہم جسٹس منیر کا ایک کارنامہ پاکستان اور پاکستانیوں پر احسان ہے۔ ریڈکلف‘ ایوارڈ کے ہندو ممبر جسٹس مہر چند مہاجن اور سکھ ممبر جسٹس تیجا سنگھ کی رپورٹوں سے متاثر ہو کر لاہور شہر بھارت کے حوالے کرنا چاہتا تھا خوش قسمتی سے ریڈکلف سے مسلمان ممبر جسٹس منیر نے جو لاہوری تھے ملاقات کی اور ریڈکلف ایوارڈ کے ہندو اور سکھ ممبر کا ریڈکلف کے ذہن میں بھرا ہوا زہر اپنے دلائل سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ ریڈکلف کا ذہن صاف ہوا تو اس نے لاہور شہر بھارت کے حوالے کرنے کا فیصلہ بدل دیا۔ 
جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے کریڈٹ میں ایسا کوئی کارنامہ نہیں جس پر ان کی اولاد ہی فخر کر سکے۔ جسٹس ڈوگر کی اگر کچھ عزت اور احترام ہے تو عدلیہ کو تماشا بنائے رکھنے والے انہیں اس سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ ماہر آئین و قانون جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے بہترین مشورہ دیا ہے ’’بہانہ بازی اور الزام تراشی کے بجائے جسٹس ڈوگر اپنی غلطی تسلیم کر کے گھر بیٹھیں‘‘۔

No comments:

Post a Comment