اتوار ، 10 اپریل ، 2011
فضل حسین اعوان
بلاول بھٹو زرداری نے دو سال قبل کہا تھا کہ جس بندوق سے ان کی والدہ کو قتل کیا گیا وہ جنرل پرویز مشرف نے لوڈ کی تھی۔ ان کے پِتا حضور آصف علی زرداری کا اپنی اہلیہ محترمہ کے اس قول پر یقین محکم رہا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ پرویز مشرف کو بے وردی تو بے نظیر بھٹو نے کیا۔ زرداری نے ایوان صدر سے نکالنے کیلئے نواز شریف کو ساتھ ملایا‘ بے وطن مشرف خود ہوئے۔ بعدازاں حالات ایسے پیدا ہوئے یا کر دئیے گئے کہ مشرف نے واپسی سے تائب ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ صدر آصف علی زرداری محترمہ کے قتل کے حوالے سے مشرف کی طرف انگلیاں اٹھنے پر اب تک ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ چار لفظی مقولہ دہراتے چلے آرہے تھے۔ گویا مشرف کو صدارت سے ہٹا کر دربدر کر دیا۔ جس سے محترمہ کے قتل کا بدلہ لے لیا لیکن اب صدر اور ان کی پارٹی کی توپوں کا رخ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے مشرف کی طرف ہے۔ خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو طلب کر رکھا ہے۔ دو روز قبل ایک پارٹی اجلاس سے خطاب کے دوران صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ق لیگ نہیں‘ مشرف ملوث ہیں۔ محترمہ کے قتل پر زرداری صاحب نے ق لیگ کو قاتل لیگ کہا تھا۔ سیاست میں چونکہ کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اس لئے کوئی بھی بیان واپس لیا جا سکتا ہے۔ خطاکار کو پارسا قرار دینے اور پارسائی کو رسوائی میں ڈھال دینے کے درہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ مرکز میں لرزیدہ اقتدار کو مضبوط بنانے اور پنجاب میں مضبوط اقتدار کو لرزانے کیلئے ق لیگ کی چوکھٹ پر سجدہ سہو ناگزیر تھا۔ ایک ہی سانس میں ق لیگ کی بریت اور مشرف کے خلاف مدعیت‘ ایک تیر سے شاید کئی شکار کرنے کی کوشش ہے۔ ق لیگ کے ساتھ دوستی سے حکومت کو جے یو آئی ف کی ضرورت رہے گی نہ ایم کیو ایم کی۔ پنجاب میں ن لیگ حکومت کو ٹف ٹائم بھی دیا جا سکے گا۔
محترمہ کے قتل کیس میں دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو طلب کر رکھا ہے۔ حکومت پاکستان نے نہیں۔ برطانوی وزیراعظم سے مشرف کی حوالگی کا سوال حکومت نے نہیں میڈیا نے کیا تھا۔ مشرف کو برطانیہ میں وزیراعظم ٹونی بلیئر نے قیام کی خصوصی اجازت دی تھی۔ ان کے پاس امارات میں قیام کیلئے لامحدود مدت کا ویزہ ہے۔ پاکستان کا برطانیہ اور امارات کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں۔ برطانیہ میں مشرف کو سکیورٹی سکاٹ لینڈ یارڈ فراہم کرتی ہے۔ اس کے اخراجات سی آئی اے کے ذمے ہیں۔ امریکی انتظامیہ مطلب براری کے بعد اپنے مہروں کو استعمال شدہ ٹشو کی طرح اٹھا پھینکتی ہے۔ لیکن سی آئی اے اپنے لئے کام کرنے والوں کا آخری حد تک تحفظ کرتی ہے۔ ابوظہبی اور دبئی میں مشرف حکمرانوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔ وہ آج بھی اپنی اداس شاموں کو رنگین بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی اکثر شامیں حکمرانوں کے ساتھ گزرتی ہیں۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مشرف کی پاکستان حوالگی موجودہ حالات میں ناممکن نظر آتی ہے۔ حکومت نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ اس پر بات ہو گی مذاکرات ہوں گے۔ یہ فیکٹر بھی اہم ہو گا کہ ہماری حکومت مشرف کی واپسی اور معاہدے کےلئے کتنی سنجیدہ ہے۔ سنجیدہ ہوئی بھی تو معاہدے کی تکمیل میں شاید اتنی مدت لگ جائے کہ ان کی اپنی مدت تمام ہو چکی ہو۔ محترمہ کا قتل بہت بڑا المیہ ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ جرنیلوں کا جمہوریت پر شب خون مار کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہے۔ محترمہ کے قاتل عبرت ناک انجام سے ضرور ہمکنار ہونے چاہئیں۔ ان میں بقول صدر پاکستان آصف زرداری کے‘ مشرف بھی شامل ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ مشرف کم از کم مقدمہ بھگتنے تو پاکستان نہیں آئیں گے۔ ان کی غیر موجودگی میں شاید عدالت سزا سنا دے۔ اس سے کیا حاصل ہو گا؟ البتہ حاصل اس سے ہو گا کہ ان پر آئین توڑنے اور جمہوریت پر شب خون مارنے کا مقدمہ چلایا جائے۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کو سزا سنا دی جائے۔ وہ آج بھی وطن سے دور زیادہ خوش نہیں ہیں۔ غدار قرار دیا جائے گا تو ایک ایک لمحہ موت سے بدتر ہو گا سب سے بڑھ کر یہ طالع آزمائی‘ شب خون مارنے اور جمہوریت الٹانے کے راستے ہمیشہ کیلئے بند ہو جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان انہیں واپس کیوں نہیں لا سکتا؟ اتنا ہی بے بس اور لاچار ملک ہے؟ حاکم ہوں گے ملک نہیں۔ ایٹمی پاکستان!
No comments:
Post a Comment