بدھ ، 06 اپریل ، 2011
تقریب پذیرائی
فضل حسین اعوان
- تقریبِ پذیرائی خالد احمد اور اجمل نیازی کے اعزاز میں تھی۔ انعقاد کا سہرا ”محتسبِ مجید نظامی و نوائے وقت“ آصف بھلی کے سر ہے۔ جو تقریب میں موجود نہیں تھے۔ کوئی مصروفیت آڑے آ گئی یا بروقت اطلاع نہیں ملی۔ فاروق عالم انصاری گوجرانوالہ سے چلے آئے تھے۔ خالد احمد کو آصف زرداری کی حکومت نے تمغہ حسنِ کارکردگی اور اجمل نیازی کو ستارہ امتیاز دیا۔ اجمل نیازی کبھی صاحبِ جبہ و دستار اور وارثِ منبر و محراب کے دعویدار نہیں رہے۔ مسجد تو جانا ہی ہوتا ہے، گوردوارے میں مقبول ہیں۔ ڈاکٹر ہیں، کلینک نہیں چلاتے۔ قلم کا علم تھامے ہوئے معاشرے کے امراض کا دوا دارو کرتے ہیں۔ خالد احمد کا شمار خبر کے متلاشیوں سے زیادہ اہلِ خبر میں ہوتا ہے۔ جو اہل خبر ہو گیا ایک نکتے کے اضافے سے اہل خیر بھی ٹھہرا۔ نسیم و کوثر سے دھلی اردو لکھتے ہیں۔ بے تکلف دوستوں کے درمیان ہوں تو عموماً لبادہ سخن کا تکلف نہیں کرتے۔ غوری صاحب کے یار ہیں آج دونوں ہشاش بشاش اور بہترین لباس میں اس مصرع کی منہ بولتی تصویر تھے۔ آج ہی ہم نے پہنے ہیں کپڑے آج ہی ہم نہائے ہوئے ہیں۔ حمید نظامی ہال میں چائے کی پیالی پر مدعوئین کی زیادہ تعداد سینئر سٹاف اور کالم نگاروں پر مشتمل تھی۔ ملک عبدالقادر حسن نے خصوصی شرکت کی۔ ابتدائی پروگرام جناب مجید نظامی کے افتتاحی کلمات اور خالد و نیازی کے خطابات پر مشتمل تھا تاہم بعد میں ”دعوتے اور بے دعوتے“ بولنے والوں نے تقریب ڈیڑھ گھنٹے پر پھیلا دی۔ زیادہ یعنی چار مرتبہ مائیک پر دسترس کا ریکارڈ یٰسین وٹو کے نام رہا۔ پہلی بار وہ بن بلائے بولے اور کہا یہ اشعار شاید علامہ اقبال نے مجید نظامی کے لئے ہی کہے ہیں۔
- یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
- جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
- دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
- سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
- دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
- عجب چیز ہے لذت آشنائی
- شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
- نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
No comments:
Post a Comment