About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, April 8, 2011

آدم خور




جمعۃالمبارک ، 08 اپریل ، 2011
فضل حسین اعوان 
زمین کو دہلا اور آسمان کو لرزا دینے والے واقعات دل پر کونسی قیامت نہیں ڈھا دیتے۔ جو کچھ بھکر کے نواح میں ہوتا رہا اس کی ابتدائی تفصیلات نے ہی انسانیت کے چہرے پر کالک مل دی ہے۔ قبروں سے میتیں نکال کر کھانے والے خاندان نے تفتیش کے دوران رونگٹے کھڑے کر دینے والے انکشافات کئے ہیں۔ سات بچوں کے باپ 35سالہ مُلزَم فرمان کا کہنا ہے ’’اب تک اپنے دو لخت جگروں سمیت چار انسانی مردار کھا چکا ہوں۔ ایک مرتبہ کتا بھی کھایا۔ پسندیدہ ڈش مردے کا گوشت ہے، میری بہن عافیہ بھی مردار خور ہے، مکلاوہ سے واپس آئی تو پھول لانے کو کہا میں نے بچے کی نعش لا کر سامنے رکھ دی۔ اسے کاٹا، پکایا اور مل بیٹھ کر کھایا، تین ماہ تک گوشت تھوڑا تھوڑا کرکے کھاتے رہے، ہڈیاں تک کھا جاتے ہیں‘‘۔ دوسرے 30سالہ ملزم عارف نے اعتراف کیا کہ اس نے پہلی مرتبہ بچے کی نعش چک نمبر23 TDA سے نکالی تھی۔ ملزمین نے تین سال قبل اپنی بہن کو غیرت کے نام پر قتل کر کے اس کا گوشت بھی کھایا تھا۔
ضمیر مر جائے تو نیکی اور بدی کے درمیان فرق باقی نہیں رہتا۔ اپنے اور پرائے کی پہچان گم ہو جاتی ہے۔ ایک مرتبہ بدی کی راہ اختیار کر لی تو مردہ ضمیر اسی راہ کا مستقل مسافر بن جاتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی، سفر ہی سفر ہوتا ہے، اسی سفر میں وہ بھٹکتے بھٹکتے مر جاتا ہے یا مار دیا جاتا ہے۔ مردار خوروں پر شاید وہ لمحہ وارد ہونے کو ہے جب پوری زندگی ایک پل محسوس ہوتی ہے۔ ان پر کیس کیا چلے گا؟ بہن کو قتل کرنے کا! کوئی مدعی نہیں ہو گا تو انجام بخیر۔ مردہ انسان کا گوشت کھانے کے جرم کی اوّل تو سزا نہیں ہو گی ہوئی بھی تو پھانسی نہیں ہے۔ آ جا کے نعشوں کی توہین کی دفعہ لگے گی۔ ’’پھانسی دو، لٹکا دو‘‘ کے مطالبات ضرور ہوں گے اور ہو سکتا ہے پولیس انجام تک پہنچا کر خود کشی قرار دے دے۔ ضرورت اس خاندان کے اس المیہ تک پہنچنے کی ہے جو اسے سفاکی کے اس درجے پر کھینچ لایا، نہ جانے جب پہلی واردات کی آسمان کیوں نہ پھٹا اور زمین کیوں شَق نہ ہوئی۔ ہو سکتا ہے آکاش رویا اور دھرتی چلائی ہو۔ دَھن سمیٹنے کی دُھن میں معاشرے اور حکمران کو خبر نہ ہو سکی ہو۔ خدا نہ کرے ایسی بے خبری پر بحیثیت قوم ہم پر قہر خداوندی ٹوٹ پڑے۔ 2005ء کا زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب شاید ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں۔ اتنے بڑے سانحات سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جو جس کام میں لگا تھا اس میں مصروف ہے۔ لوٹ مار کرنے تجوریاں بھرنے، دوسروں کا حق مارنے میں…لاہور میں بھی گزشتہ روز ایک قیامت برپا ہو گئی۔ 
مطلقہ خاتون اپنے 6 سالہ بیٹے کے لئے روٹی کا اہتمام نہ کر سکی تو اس کا گلا دبا دیا۔ پون کروڑ کا شہر ایک بچے کے لئے آدھی روٹی کا بندوبست نہ کر سکا۔ کروڑ پتی پڑوسی معصوم کی بھوک سے کیونکر بے خبر اور لاتعلق رہے۔ جب انسان انسانیت سے لاتعلق ہو جائیں گے تو عذاب الٰہی میں شدت تو آئے گی۔ مردار خور خاندان نے شاید پہلا مردہ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر کھایا ہو۔ بنگلے، پلازے، محلات کھڑے کر لینا اندرون اور بیرون ممالک جائیدادیں بنا لینا، کاروبار چمکا لینا! بینکوں میں اربوں رکھوا لینا ہی مقصود حیات نہیں ہونا چاہیے۔ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق کچھ حصہ بے بسوں، بے کسوں، لاچاروں اور درد کے ماروں کے لئے بھی مختص کر دے تو شاید کسی ماں کو بچے کا گلا دبانا پڑے نہ کسی کو اولاد کے گلے میں برائے فروخت کا بورڈ لٹکانا پڑے۔ خود کشی کی راہ پر گامزن بہت سے خاندانوں کی زندگیاں بچ جائیں اور شاید مزید آدم خوری کے واقعات کے آگے بند بھی باندھا جا سکے۔ معاملات اسی ڈگر پر رہے تو ڈر ہے مردار خور گروہوں کی شکل اختیار کر لیں اور وہ ذمہ دار زندوں کو کچا چبانے لگیں۔


No comments:

Post a Comment