منگل ، 05 اپریل ، 2011
فضل حسین اعوان ـ
ذوالفقار علی بھٹو جیسا متنازعہ کردار پاکستان میں شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ ان کے چاہنے والوں کی کمی ہے نہ نفرت کرنیوالوں کی۔ چاہنے والے ٹوٹ کر چاہتے اور نفرت کرنے والے انتہا کی نفرت کرتے ہیں۔ قابلِ نفرت ہونے کا ریکارڈ شاید مشرف نے توڑ دیا۔ مشرف کا ریکارڈ بھی برابر یا ٹوٹا چاہتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے نفرت کرنیوالے بھی ان کی کسی نہ کسی خوبی کے قائل ضرور ہیں۔ 93 ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی کو ان کا کارنامہ نہ سمجھنے والے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے اقدام کو سراہے بنا نہیں رہ سکتے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے بھی بہت سے لوگ معترف ہیں۔ ایٹمی پروگرام کی شروعات سے کس پاکستانی کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ بھٹو کی سیاست اور کردار سے اختلاف رکھنے والوں کے پاس بھی مضبوط دلائل ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ان کے کردار کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ ان پر طرح طرح کے الزامات لگے۔ کرپشن کا شاید ایک بھی نہیں تھا۔ تاہم احمد رضا قصوری کے والد کے قتل پر ان کو سزائے موت سے ہمکنار کر دیا گیا۔ کسی شخصیت کا قد کاٹھ کا تعین عدالتی فیصلے کرتے ہیں نہ حکومتی اقدامات۔ ذوالفقار علی بھٹو کو طویل عدالتی عمل کے بعد سزا سنائی گئی تھی۔ بعض ججوں نے فیصلے کے حوالے سے حکومتی دباﺅ کا اعتراف کیا۔ جس کے باعث فیصلہ مشکوک ٹھہرا اور اسے جوڈیشل مرڈر تک بھی کہا گیا۔ لوگ اب بھی بھٹو کی شخصیت کے سحر سے نکل نہیں سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پیپلز پارٹی بھٹو کے نام پر ووٹ لے کر تیسری مرتبہ اقتدار میں ہے اور اب اس نے بھٹو کی بریت کےلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا ہے۔ بھٹو کے جاں نشینوں اور وارثوں کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت سے بھٹو کی سزائے موت پر نظرثانی کی درخواست کریں۔ بابر اعوان کہتے ہیں کہ عدالتی تاریخ پر سیاہ دھبہ دھونے کے لئے یہ کام کیا۔ قطع نظر اس کے کہ عدالت اس کیس پر کیا فیصلہ دیتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے موجودہ عدلیہ کی آزادی، فعالیت اور غیر جانبداری کو تسلیم ضرور کیا ہے۔ جس عدلیہ کے کم از کم 15 بڑے فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں حکومت مزاحم ہے صدر صاحب نے ریفرنس میں اس کے بارے میں کہا ہے کہ ”پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے اور عوامی اہمیت کے مقدمات میں فعال کردار ادا کر رہی ہے.... ضیاءالحق کی جانب سے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے عدلیہ کا استعمال ہماری قانونی تاریخ کا حصہ نہیں رہنا چاہئے کیونکہ اس ملک نے اب ایک ایسی خودمختار اور فعال عدلیہ کے سائے میں جمہوریت کے راستے پر آگے بڑھنا شروع کر دیا ہے جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں خلل ڈالنے یا اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے بھرپور عزم کا اظہار کیا ہے۔“ کوئی شخص گناہوں کے قلزم میں ڈوبا ہو یا جرائم کے پہاڑ پر بیٹھا ہو۔ اس سے پیار کرنے والوں اور وارثوں کو وہ معصوم نظر آتا ہے۔ بھٹو کے وارث بریت کا فیصلہ لے کر ان کو قومی ہیرو کے درجے پر لانا چاہتے ہیں۔ ریفرنس دائر کرنا ان کے اختیار میں تھا اپنے بانی سے محبت میں کر دیا۔ پاکستان کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ آدھا پاکستان ذلت آمیز طریقے سے الگ کر دیا گیا۔ 93 ہزار فوجی دشمن کی قید میں چلے گئے۔ سانحہ کارگل ہزیمت کی علامت بن گیا۔ مارشل لاﺅں سے بار بار جمہوریت کا خون ہوتا رہا؟ کیا پاکستان کا کوئی وارث نہیں، کوئی چاہنے والا نہیں؟ اگر وارث ہیں اور چاہنے والے بھی تو پاکستان کی بربادی کے ذمہ داروں، اس کو توڑنے اور نوچنے والوں کے خلاف ریفرنس کیوں دائر نہیں کرایا جاتا!
No comments:
Post a Comment