About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, April 29, 2011

معافیوں کے مشورے




29
اپریل2011
 معافیوں کے مشورے
فضل حسین اعوان
بعض صحیح و بروقت فیصلے اور اقدامات انسان کو عظمت کی معراج اور کبھی محض ایک غلطی پستی کی اتھاہ گہرائی تک لے جاتی ہے۔ میاں نوازشریف سے بھی مشرف کو آرمی چیف بنانے کی ایسی ہی غلطی ہوئی جس کا خمیازہ نہ صرف نوازشریف اور ان کی بقیتہ العزیز و اعجاز پارٹی کو بھگتنا پڑا بلکہ اس کے زخم قوم آج تک امریکی جنگ اور ڈرون حملوں کی صورت میں سہہ رہی ہے۔ نوازشریف سے ان کی زندگی کی بڑی غلطی کے بارے میں پوچھا جائے تو ان کا اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہو سکتا ”مشرف کی تقرری“۔ یہ غلطی کس نے کرائی؟ وہ آج بھی ان کے ساتھ ایسی ہی غلطیاں کرانے کی پوزیشن میں ہیں۔ مشرف سے پاکستان کی سیاست کے حوالے سے پوچھا جائے تو گھما پھرا کر وہ نوازشریف کا نفرین لہجے میں ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوازشریف نالائق اور نااہل تھے۔ مشرف کو آرمی چیف بنانے سے ثابت بھی یہی ہوتا ہے۔ نوازشریف تو مشرف کے زخم خوردہ ہیں ان کے لہجے میں تلخی کا جواز بنتا ہے۔ مشرف پر نوازشریف کا بڑا احسان میرٹ سے ہٹ کر ان کے ظرف سے بڑھ کر عہدے سے نواز دینا تھا اگلے عہدے پر مشرف شب خون مار کر خود جا بیٹھے۔ غلط یا صحیح، جائز یا ناجائز جیسے بھی، مشرف کو اعلیٰ مقام نوازشریف کی شخصیت کی بدولت ہی ملا لیکن ان کے نوازشریف کے بارے میں زہر آلود لہجے، قہر آلود رویے کو احسان فراموشی اور کم ظرفی کے کس درجے میں رکھا جائے؟ وہ ہمہ وقت بہتان بازی اور دشنام طرازی پر آمادہ و مائل رہتے ہیں۔ تازہ ترین واردات میں نوازشریف سے کہا ہے کہ وہ امریکی خاتون صحافی کو ملکی راز فراہم کرنے پر قوم سے معافی مانگیں۔ نوازشریف نے ”قومی راز“ کیا افشا کیا ہے! بقول سابق جرنیل کے نوازشریف نے کم بارکر کو پاکستان میں اجمل قصاب کا ٹھکانہ ڈھونڈنے میں مدد کی تھی۔ 
مشرف کی طرف سے معافی کے مطالبے پر ن لیگ کے خوابیدہ ترجمان دو تین دن بعد گڑبڑا کر اور ہڑبڑا کر بڑبڑاتے ہوئے اٹھے۔ شاید پانڈیوں نے اطلاع دیر سے پہنچائی ہو۔ بڑے لوگوں نے اپنی تن آسانی کے لئے نوکر رکھے ہوئے ہیں۔ بڑے لوگوں کے نوکر بھی تو دوسرے لوگوں کے لئے بڑے ہوتے ہیں وہ اپنی خدمت کے لئے چاکر بھرتی کر لیتے ہیں آگے پھر چاکر اپنے لئے چوکر اور چوکر پانڈی رکھ لیتے ہیں۔ پانڈی کی درجہ بدرجہ اوپر تک خبر پہنچنے اور اس کی وضاحت میں دو تین دن لگ جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بہرحال وضاحت یوں کی گئی۔ ”مسلم لیگ (ن) کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید نے امریکی صحافی کم بارکر کی کتاب کے ان مندرجات کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ممبئی حملوں کے مرکزی ملزم اجمل قصاب کے گھر کا پتہ امریکی صحافی کم بارکر کو نوازشریف نے بتایا تھا۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ کم بارکر کی کتاب اتنی غیر معتبر ہے کہ خود امریکی میڈیا نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ لگتا ہے کہ کم بارکر کچھ نہ کچھ نیا لکھنا چاہتی تھیں اور اسی دھن میں انہوں نے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ صرف پرویز مشرف نے اس کتاب کی بات کی ہے اور اس کا مقصد بھی صرف نوازشریف کو بے جا تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ 
نوازشریف نے کم بارکر کو جو کچھ بتایا وہ قومی راز ہے تو کیا اس کی معافی بنتی ہے؟ لیکن پرویز مشرف کا ہلکا سا ٹریک ریکارڈ ملاحظہ فرمائیے۔ پورا ملک امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا۔ تین ہزار فوجی اس جنگ کا ایندھن بنے۔ دیگر ہلاکتیں تیس ہزار سے زائد ہیں۔ جامعہ حفصہ لال مسجد میں معصوم بچیوں کو بارود سے تحلیل کر دیا گیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر شکوک کے سائے مسلط کئے گئے۔ ڈاکٹر قدیر خان کو بدنام اور ایٹمی معلومات امریکہ کو دی گئیں۔ کارگل ایڈونچر میں فوج کی وسیع پیمانے پر شہادتیں نتیجہ ہزیمت و پسپائی۔ پونے 9 سالہ اقتدار میں تین مرتبہ آئین شکنی۔ اکبر بگٹی قتل جس کی ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے، بینظیر قتل کیس میں طلبی.... اور مشرف کسی ایک پر بھی شرمندہ ہیں نہ معافی مانگنے پر تیار۔ 
آج کل معافی کی بحث چل رہی ہے۔ کوئی خود معافی مانگتا اور دوسروں کو بھی مانگنے کی تلقین کرتا ہے کوئی اپنے جرائم کے پنڈورہ بکس پر بیٹھ کر دیگر کے گناہوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ معافی کوئی جرم اور گناہ سرزد ہونے پر مانگی جاتی ہے ضروری نہیں کہ ہر گناہ اور جرم قابلِ معافی بھی ہو۔ مشرف تو ویسے بھی معافی مانگنے پر تیار نہیں۔ جرا ¿ت کا مظاہرہ کریں کمانڈو کہلاتے ہیں بن کر بھی دکھائیں۔ پاکستان آ کر الزامات کا سامنا کریں۔ دیگر گنہگارانِ سیاست قوم سے معافیاں نہ مانگیں۔ اپنے کئے پر عدلیہ یا خصوصی کمشن اور ٹربیونل بنوا کر ان کے سامنے خود کو انصاف کے لئے پیش کریں۔



No comments:

Post a Comment