زندگی ایک پل
(شفق .... فضل حسین اعوان)
زندگی سفر، انسان مسافر ہے۔ زندگی کی حقیقت پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں۔ کچھ مقدر کے سکندر زندگی کے لمحہ لمحہ سے رفعتیں، نعمتیں اور الفتیں کشید کرتے ہیں۔ کچھ کی زندگی عبرت کا ساماں اور محرومیوں کا نشاں بنی رہتی ہے۔ کچھ کیلئے رات شبِ جشن و طرب اور کچھ کیلئے شبِ حسرت و کرب ہوتی ہے۔ کچھ اسے سو کے کچھ رو کے گزار دیتے ہیں۔ جو دنیا میں آیا اسے ایک دن جانا ہی ہے۔ میاں محمد نے کیا خوب کہا ہے....ع
سدا نہ چھوپے پا محمد رل مل بہناں سنگاں
سدا ہتھیاں مہندی لگدی سدا نہ چھنکن ونگاں
دکھ میں گزرے یا سکھ میں، سو سوا سو سال بھی جئے تو بھی موت کی دہلیز پر پیچھے مڑ کر دیکھے تو انسان کو یہ مدت ایک پل سجھائی دیتی ہے۔ انسان دنیا میں آئے تو کان میں اذان دی جاتی ہے۔ دنیا سے جائے تو اسکی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے۔ اذان کے بعد اتنا طویل وقفہ کسی اور نماز کیلئے نہیں ہے۔ قدرت کے ہاں ہوسکتا ہے کہ یہ مدت ایک ثانیہ سے بھی کم ہو.... کہیں پڑھا ہے کہ ایک انسان قبرستان سے گزر رہا تھا۔ ایک پھٹی ہوئی قبر دیکھی اس میں جھانکا، ایک سفید ریش بزرگ تلاوت کررہا تھا۔ اس نے جست لگائی اور ان بزرگ کے ساتھ جا بیٹھا۔ بابا جی سے کچھ باتیں کرنا چاہتا تھا۔ بزرگ نے کہا جاﺅ چلے جاﺅ۔ تمہیں نہیں معلوم تمہارے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ اسکے ساتھ ہی بابا جی نے اسے باہر دھکیل دیا۔ صرف پل دو پل اسکے قبر کے اندر گزرے تھے۔ اپنی بستی کی طرف رخ کیا، راہگیر عجب راستے اجنبی، بستی کی جگہ بلند و بالا محلات و عمارات کا شہر آباد تھا، یہ شخص اس شہر میں ایک عجوبہ تھا۔ پل بھر میں کیا انقلاب آگیا؟ کچھ لوگوں کو اپنا ماجرا سنایا۔ اپنے بارے میں بتایا، اپنے خاندان کا پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ اڑھائی سو سال قبل کی باتیں کررہا ہے۔ ذرا سوچئے آج اڑھائی سو سال پہلے کا انسان آپکے گاﺅں، شہر یا محلے میں چلا آئے۔ آپ اسے کیسا پائیں گے اور وہ کیا گمان کریگا۔
وہ پل جس میں پوری زندگی سموئی ہوتی ہے، ہجر کی کلفتیں، وصل کی قربتیں، حسن و عشق باہم محبتیں، نفرتیں، الجھنیں، سلجھنیں، حسرتیں، عظمتیں، رفعتیں، مفلسی، بے بسی، شاہی، گدائی، روشنی کی سحر، اندھیرے میں ڈوبتی شام، شوخیاں، بانکپن، انجمنیں، تنہائی کا عالم، جدائی کا غم، نماز، روزہ، حج، گناہ، توبہ، جام، ساقی اور بادہ خواروں کا ہجوم، جام و سنداں کا کھیل، رقص و سرور کی محفلیں، یاروں بھری انجمنیں سب اسی ایک پل میں ہوتا ہے۔ اسی ایک پل میں انسانیت کے قتل کے معاہدے، غیرتوں کے سودے، آسماں سے تارے توڑ کے لانے کے نعرے، خالی دامن بھر دینے کے وعدے کئے جاتے ہیں۔ یہ پل ختم ہوتا ہے، تو شاہ ہو یا گدا، دو گز کی اندھیری قبر مقدر ہے، جس کی تاریکی میں کھربوں کی جائیداد، محلات، کاروبار، کچھ بھی کاگر نہ ہوگا۔ بلکہ انسانیت کو تڑپانے، انسانوں کو ڈرون حملوں میں مروانے، رعایا کا گوشت چبانے کی پاداش میں یہ تاریکی مزید گہری ہوجائیگی۔ ایک پل کو روشن اور خوبصورت بنانے کیلئے محنت کی جائے تو عظمت ہے۔ رعایا کی بے بسی، بے چارگی، حسرتوں اور تمناﺅں پر محلات کھڑے کرنا لعنت ہے۔ زندگی کے سفر میں اپنے اعلیٰ کردار سے اندھیری کوٹھڑی کو روشنیوں کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔ فیصلہ اہل عقد و اقتدار، اپنوں کی گردن پر سوار، غیروں کے یار اور وفادار کرلیں۔ انتخاب کرلیں کہ ڈالروں کی جھنکار سے ایک پل کو تاباں و درخشاں بنانا ہے یا تاریک کوٹھڑی میں اجالا پھیلانا اور اسے رنگ و نور کا گہوارہ اور بقعہ نور بنانا ہے جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment