جمعۃالمبارک ، 22 اپریل ، 2011
تھنک ٹینک
فضل حسین اعوان
جمہوریت میں اپوزیشن حکومتی پارٹی کا متبادل ہوتی ہے۔ وہ اقتدار میں آنے کا تحمل سے انتظار اور اسکی تیاری کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مروجہ جمہوریت میں برداشت نام کی کوئی چیز نہیں۔ اپوزیشن ہمہ وقت اقتدار میں آنے کے لئے مضطرب اور بے چین رہتی ہے۔ وہ بھی بغیر کسی تیاری کے۔ الیکشن ہارنے کے پہلے روز سے اپوزیشن حکومت گرانے کی منصوبہ بندی شروع کر دیتی ہے۔ دو اڑھائی سال میں مد جزر اور جزر مد میں بدل جاتا ہے۔ 1988 سے 1999 تک گیارہ سال میں سیاسی پہلوانوں نے ایک دوسرے کی دو دو حکومتیں الٹا دیں۔ گیم اصولوں کے مطابق ہوتی تو چوتھی حکومت کی مدت 2008ءمیں مکمل ہونا تھی۔ آپس کی چپقلش بے صبری اور عدم برداشت نے فوجی مہم جوئی کی راہ ہموار کی۔ پھر دونوں پارٹیوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ ان کی بقیہ نو سالہ مدت آمریت کی نذر ہو گئی۔ اس دوران دونوں پارٹیوں کی قیادتوں کو عذاب کا سامنا رہا۔ جیلیں کاٹیں جلاوطنی بھگتی۔ امید تھی قیادتیں پختہ کار ہو گئی ہوں گی۔ ماضی سے سبق سیکھ لیا ہو گا۔ برداشت اور تحمل کے پودے نے جڑ پکڑ لی ہو گی۔ جس کو مفاہمت کہا جا رہا ہے اُس کا مطلب بھی مفاہمت ہی ہو گا۔ لیکن سب سراب اور فریب ثابت ہوا۔ یوں لگتا ہے ہماری سیاست آج پھر 80 اور نوے کے نفرت آگیں دور کی طرف لوٹ گئی ہے۔ عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے بڑی پارٹیاں ایک دوسرے کی حکومت گرانے کے لئے سرگرداں ہےں۔ جرنیلوں کو رام کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں کوئی ان کو دن کے اجالے میں ملتا ہے کوئی رات کے اندھیرے میں۔ کوئی کہتا ہے جرنیل ہمارے ساتھ ہیں کوئی آواز لگاتا ہے جرنیلو کچھ کرو۔ اصول بے اصولیوں پر بھاری پڑ گئے۔ بے اصول معتبر بن رہے ہیں۔ جیسی بھی ہے حکومت کو سوا تین سال بھگت لیا مزید پونے دو سال گوارا نہیں۔ کہیں سے مڈٹرم کا نعرہ لگتا ہے کہیں سے ٹیکنو کریٹس کو لانے کو غلغلہ اٹھتا ہے۔ الیکشن کے ذریعے یا چور دروازے سے آنے والوں نے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ خاک! سوچ ہے، اقتدار ملے گا تو دیکھا جائے گا۔ بدیس میں جمہوریت کیوں کامیاب ہے؟ اس لئے کہ جو پارٹی حکومت میں ہوتی ہے عوام کی خدمت پر حقیقت میں یقین رکھتی اور اپوزیشن حکومت میں آ کر جو کرنا ہے اس کی پلاننگ کرتی ہے۔ شیڈو کیبنٹ اور تھنک ٹینک بنائے جاتے ہیں۔ شیڈو کیبنٹ حکومت کی کارکردگی مانیٹر کرتی اور اسے راہ راست پر رکھتی ہے۔ تھنک ٹینکس ریسرچ اور پلاننگ کرتے ہیں۔ معاشرتی، معاشی، سیاسی، سائنسی، صنعتی، کاروباری اور عسکری پالیسیاں ترتیب دینے کے لئے ماہرین کی کمیٹیاں بنا دی جاتی ہیں۔ اقتدار میں آتے ہیں پالیسیاں تیار ہوتی ہیں ان پر عملدرآمد شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اندازہ کیجئے حکومت سے باہر بیٹھی پارٹیوں کے پاس اگر کوئی تھنک ٹینکس اور برین باکس ہیں تو ان کے ذمے حکومت گرانے کی منصوبہ بندی ہے۔ بیان بازی پر زور ہے۔ اُدھر حکومت کی یہ حالت ہے کہ وزیر خارجہ کی گو پولیو زدہ کارکردگی تھی وزارت تو چل رہی تھی۔ اس کے بعد سرے سے وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ بابر اعوان بھٹو بریت ریفرنس میں کودے تو وزیر قانون ایسی ہستی کو لگا دیا گیا جو شاید عدالت میں گواہ کے طور پر تو پیش ہوئے ہوں وکیل کے طور پر نہیں اور بیان دیا جا رہا کہ باقی وزیر کون سے اپنے شعبوں کے ماہر ہیں۔ کنڈکٹروں ڈرائیوروں کے سپرد ریلوے اور پی آئی اے ہونگے تو جو حشر ہونا ہے وہ سامنے ہے۔ پہلے پانی و بجلی کی وزارت سوئی رہتی تھی اب اس کے وزیر سوئے رہتے ہیں۔ ضروری نہیں کامیابی سے گدی چلانے اور لنگر برتانے والا ملک بھی اتنی کامیابی سے چلا لے۔
No comments:
Post a Comment