About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, April 13, 2011

بدنصیبی




 بدھ ، 13 اپریل ، 2011

بدنصیبی
فضل حسین اعوان
بدقسمتی و بدنصیبی کا ہمارے تعاقب میں رہنا کیا کوئی معمہ ہے سمجھنے کا اور نہ سمجھانے کا؟کیا ہم بطورِ قوم بدعائے ہوئے ہیں، نظر بد کا شکار ہیں یا کسی آسیب اور طلِسم و سحر کے زیر اثر۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے بہت سے ممالک ترقی کی معراج تک جا پہنچے۔ ہم جہاں تھے وہیں بھٹک رہے ہیں۔ گردشِ لیل و نہار کا شکار ہیں۔ گردشِِ دوراں کے بھنور میں غوطہ زن ہیں ایک لمحے دو گام آگے چلتے ہیں تو اگلے ثانیہ چار قدم پیچھے آ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس کیا کچھ نہیں ہے۔ ہمارے تو دشت و صحرا بھی چمن زار ہیں۔ ارضِ پاک پر کبھی خزاں نہیں آئی۔ اس کے اشجار ثمر بار اور پر بہار ہیں۔ زرخیز زمینیں، لامحدود آبی وسائل، ایشیا کا سب سے بڑا نہری نظام، چاروں موسم قدرت کا عظیم تحفہ، جنت نظیر سیاحتی مقامات فطرت کا حسین عطیہ، زمین کی کوکھ تیل گیس اور کوئلہ کے سینکڑوں سال کی ضروریات پوری کرنے کے ذخائر سے بھرپور، سمندر مہنگی ترین اور وافر مچھلی، ہیروں اور جواہرات سے معمور۔ ہزاروں مربع میل پر پہاڑ اپنے دامن میں کھربوں ڈالر کا سونا چاندی، تانبا، سنگِ سبز و مَرمَر یاقوت و لعلِ پیکانی اور لعل رُمانی لئے ہوئے۔ سرسبز کھیتیوں میں راہگزریں اور پگڈنڈیاںمثلِ کہکشاں۔ بل کھاتی شریر ندیاں۔ آنکھوں کو خیرہ کرنے والے چشمے۔ ہنرمند لیبر، کوہ شکن مزدور، دھرتی کا سینہ چیر کر فصلیں اگانے کا فن جاننے والے کسان۔ ذہین انجینئر، ایٹمی سائنسدان‘ ماہر ڈاکٹر، عظمتوں کا نشان افواج، نڈر بے باک نہ جھکنے اور نہ بکنے والے صحافی۔ یہ سب جس ملک کے پاس ہو اس کی قسمت کا ستارہ گردش و گرداب میں کیوں رہے۔ ہم ستاروں پر کمند ڈالنے کے بجائے پستیوں کے مسافر کیوں بن جائیں؟ بغور جائزہ لیا جائے تو معمہ سمجھ میں آجاتا ہے اور اس کی گُتھیاں سلجھ بھی سکتی ہیں۔ صرف ایک مردِ کامل، مردِ پارسا و مردِ باصفا قائداعظم ثانی کی ضرورت ہے۔ قائداعظم کے بعد ضرورت مند بہت ملے ان جیسا لیڈر ایک بھی نہیں۔ دو سو ممالک میں پاکستان ساتویں ایٹمی طاقت ہے کم از کم ایک سو 93 ممالک پر تو برتری حاصل ہے ہی۔ وسائل بروئے کار لائے جاتے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی و خوشحالی میں بھی ساتویں اور آٹھویں نمبر پر نہ ہوتے۔ جن ہاتھوں میں زمامِ اقتدار آتی رہی۔ ان میں عزم و حوصلے کی کمی تھی۔ حکمت و دانش کا فقدان تھا۔ محنت کے بجائے شارٹ کٹ کو نصب العین بنایا۔ آمریتوں میں اقتدار کو طویل بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تو جمہوریتوں میں ڈنگ ٹپانے کی۔ خودانحصاری کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔ لانگ ٹرم پالیسیوں کے بجائے اپنی مدت پوری کرنے کو مطمعِ نظر بنایا۔ اکثر نے وسائل کو بروئے کار لا کر عوام کی تقدیر بدلنے کے بجائے اپنے اور اقربا کے حالات بدلنے پر وسائل جھونک دئیے۔ نتیجہ غربت، مہنگائی بدنظمی و بدعملی کی صورت میں سامنے ہے۔ غیروں پر تکیہ اور قرض کی عِلّت نے غلامی کی ذلت میں مبتلا کر دیا۔ قرض لو، کھاﺅ پیو موج اڑاﺅ اتارنے کے لئے نئے آ جائیں گے۔ نئے آنے والے بھی اپنے پیشروﺅں کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ یوں قرض در قرض کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آج قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے ہر پیدا ہونے والا بچہ 65 ہزار روپے قرض سر لے کر پاک دھرتی پر آنکھ کھولتا ہے۔
وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی سربراہی میں وزارت خزانہ کا وفد آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے امریکہ گیا ہے۔ انہی وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ وہ بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے میں بے بس ہیں.... چلو بے بسوں پر ٹیکس لگانے اور نکلوانے میں تو شیر ہیں۔ واپس آئیں گے تو ڈالروں کے بریف کیس دیکھ کر بہت سوں کی رالیں ٹپک پڑیں گی۔ اس کے بعد شاید ہر پاکستانی 70 ہزار کا مقروض ہو جائے۔ جن ہاتھوں میں قوم کی تقدیر ہے وہی قوم کے لئے عفریت و آسیب ہیں وہی بدقسمتی و بدنصیبی کی ابتدا و انتہا ہیں۔ خوشحالی و خود انحصاری کی منزل پانے اور ان سے بچنے کیلئے قوم کوئی تدبیر کرے‘ تدبیر۔


No comments:

Post a Comment