About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, January 31, 2011

میاں صاحب بڑے لیڈر ہیں۔۔ ثابت بھی کریں

 پیر ، 31 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
پاکستان کی سیاست دھوپ اور چھاؤں کی مانند ہے۔ یہ بن بادل برسات کی طرح کسی کو بیٹھے بٹھائے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے اور کسی کا کروفر تفاخر اور کبرپل بھر میں خاک میں ملا دیتی ہے۔ پاکستان میں مستقل محبت پیار احترام نام اور پرنام اگر کسی کو ملا تو وہ حضرت قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح ہیں۔ ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے کبھی مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا اور کبھی عدم مقبولیت کی پستیوں میں گرے۔ پیپلز پارٹی بھٹو کے نام پر آج تیسری بار اقتدار میں ہے تو مسلم لیگ ن نے محض میاں نواز شریف کی شخصیت کے باعث 1997ء کے انتخابات میں کلین سویپ کیا۔ مسلم لیگ ن نے 207 میں 137 نشستیں حاصل کرکے گذشتہ انتخابات میں بھاری مینڈیٹ کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا 1970ء کے الیکشن میں مغربی پاکستان میں مقبولیت کا ستارہ عروج پر تھا۔ وہ 138 میں سے 81 نشستیں حاصل کرکے مغربی پاکستان میں مرد میدان قرار پائے تھے لیکن جیت کا یہ تناسب میاں نواز شریف کے 1997ء کے مارجن سے بہت کم ہے۔ یقیناً دونوں لیڈروں کی ذہانت‘ فطانت‘ دور اندیشی‘ معاملہ فہمی‘ قوت ارادی اور قوت فیصلہ کی صلاحیت کو اہلیت کا کوئی مقابلہ اور موازنہ نہیں۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ دونوں لیڈروں کی مقبولیت میں کمی بیشی ضرور ہوتی رہی ہے لیکن دونوں پاکستان کے بڑے حلقے کے دلوں میں بستے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو آنجہانی ہو گئے نواز شریف آج بھی تاریخ ساز لیڈر ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک یکساں ہر دلعزیز کچھ کمزوریوں کے باوجود بھی ملک میں کسی بھی لیڈر سے زیادہ چاہے جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور سیاست میں بلند مقام کے باعث لوگ ان سے بڑی امیدیں رکھتے ہیں۔ میاں صاحب 60 سال کی عمر کراس کر چکے اس عمر میں ان کو پختہ ذہن کا سیاستدان ہونا چاہئے مگر افسوس کہ ان کی طبعیت میں ٹھہراؤ کے بجائے تلاطم اور خلفشار موجود ہے۔ لمبی چوڑی بحث میں نہیں پڑتے 26 جنوری 2011ء کو ایک معاصر کو انٹرویو کے دوران فرمایا ’’موجودہ حالات میں انتخابات یا ان ہاؤس تبدیلی خطرناک کام ہے‘اگلے روز پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس کے بالکل برعکس گویا ہوئے۔ ’’10 نکاتی ایجنڈے پر عمل نہ کیا تو حکومت کو گھر جانا پڑے گا۔ مڈٹرم الیکشن کرانا پڑیں گے یا اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت بنائیں گی‘‘ اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ آج کچھ کیا کل اسی معاملے پر نیا کچھ ان کے ترجمان اور پھر ترجمانوں کے ترجمان اور میڈیا میں میاں صاحب کی زبان‘ میاں صاحب کو حقائق کا ادراک کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے جو کچھ میاں صاحب نے کہہ دیا اس پر بلا سوچے سمجھے اور غور و خوض کئے پورے زور سے ڈھول پیٹتے ہیں دوسرے دن اس کے برعکس کہے گئے تو سچ ثابت کرنے کیلئے ایڑھیاں اٹھا اٹھا کر زور لگا کے بولتے ہیں۔ اس سے جہاں میاں صاحب کے ہرکاروں کا اعتبار جاتا رہتا ہے وہیں میاں صاحب کی سیاسی پختگی بھی زیر بحث آتی ہے۔ میاں صاحب کوئی معمولی لیڈر نہیں ہیں۔ بڑے لیڈر ہیں۔ خود کو اپنے کردار‘ اعمال‘ افکار اقوال اور افعال سے بھی بڑا ثابت کریں۔ بھولپن اور سادگی میں بھی ایسی بات نہ کریں جس سے دوسرے روز رجوع کرنا پڑے۔ قائداعظم کا ثانی تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔

Sunday, January 30, 2011

منزلِ تذلیل کی طرف تعجیل


 اتوار ، 30 جنوری ، 2011

فضل حسین اعوان ـ 5 گھنٹے 1 منٹ پہلے شائع کی گئی
جلاوطنی، دیس نکالا، غریب الوطنی، غریب امیر، بادشاہ فقیر، کسی کیلئے بھی بہت بڑی سزا ہے۔ ایسی جلاوطنی انسان کو اندر سے کھوکھلا اور خاندان کو برباد کردیتی ہے جس کے خاتمے کا امکان اور نشان تک نہ ہو۔ جب دربدر ہونے کا سامان خود اپنے ہاتھوں، اعمال اور افعال سے کیا ہو تو پچھتاوا نسلوں تک منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ قدرت نے بڑے بڑوں کو عبرت کا نشان اور صاحبانِ دانش کیلئے عبرت انگیز داستان بنا دیا۔ شہنشاہِ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے اپنی پالیسیوں کے باعث اپنی عزت خود خاک میں ملائی۔ اپنا تاج سر سے کھینچ کر خود زمین پر دے مارا۔ اپنا چہرہ خود نوچ کر بدصورت و بدنما بنالیا۔ اس نے صاحبانِ جبہ و دستار اور ساغر و مینا کے پرستاروں کے درمیان لکیر کھینچ دی۔ پھر بادہ خواروں کو اپنے گرد جمع کرلیا تو وارثان منبر و محراب نے اربابِ طاﺅس و رباب پر برق بن کر تو گرنا تھا۔ وہ شہنشاہ کی طرف شعلہ بن کر لپکے اور طوفان بن کر جھپٹے تو رضا شاہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان تو بچا لے گیا لیکن اسکی عظمت کی قبا داغدار اور عزت و حرمت کی دستار تار تار ہوچکی تھی۔ بادشاہ سلامت مہکتے اور فصلِ گل سے لدے گلشن و گلستان کو چھوڑ کر اجڑے دیار کی طرف روانہ ہونے کیلئے جہاز کے پہلے زینے پر قدم رکھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ جہاز نے زمین سے آسمان کی بلندی کی اڑان پکڑی تو شہنشاہ اپنی سوچوں میں اوجِ ثریا سے زمین کی پستی پر اتر آیا۔ ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان ضرور سوچا ہوگا، کاش میں نے یہ کیا ہوتا، وہ نہ کیا ہوتا، لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ رضا شاہ پہلوی دربدر ہوئے۔ موت کا خوف لمحہ لمحہ دامن گیر رہا۔ 7 جولائی 1980ءکو مصر میں ایران کا بادشاہ لاوارثوں کی طرح ایک خیراتی ہسپتال میں مر گیا۔ آج مصر کے حسنی مبارک کو بھی شہنشاہِ ایران جیسے انجام کا سامنا ہے۔ بدبختی اور بدقسمتی آج بھی شہنشاہِ ایران کے خاندان کے تعاقب میں ہے۔ 2001ءکو انکی صاحبزادی 31 سالہ لیلیٰ پہلوی نے خودکشی کی اور چند روز قبل چھوٹے صاحبزادے علی رضا پہلوی نے بھی اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لی۔ ہمارے کارپردازانِ اقتدار، بادہ خوار میخوار خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں۔ ماضی سے سبق سیکھتے ہیں نہ زمان و مکان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ بے ہنگم اور بے ڈھنگے انداز میں جی حضوریوں اور واہ واہ کرنیوالوں کے ہجومِ بے سمت میں خود کو اسکا دلہا سمجھتے ہوئے منزلِ تذلیل کی طرف بڑی تعجیل سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ شہنشاہِ ایران اور اسکے خاندان کے انجام سے سبق سیکھنے کے بجائے وہی کام کئے جا رہے ہیں جو اسکی کی ذلت و رسوائی کا سبب بنا۔ پہلوی، تیونس کے بن علی اور حسنی مبارک جس ”مقام“ پر اپنی خباثتوں سے نصف اور ربع صدی میں پہنچے ہمارے صاحبانِ اقتدار اپنی ”ریاضتوں“ سے دو تین سال میں پہنچ جاتے ہیں۔ اپنے سیاستدانوں کے کردار کا جائزہ لیجئے۔ انہوں نے جتنا پڑھنا اور جو کچھ کرنا تھا کرلیا۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت کس نہج پر کررہے ہیں؟ ایک بھی سیاستدان کا نام بتائے جو اپنی اولاد کو سچا اور کھرا سیاستدان بنانے کیلئے اسکی تربیت کررہا ہو۔ کتنے کے بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی؟ معروف سیاستدانوں کی اولادیں، بیگمات اور بہو بیٹیاں تک قبضہ گروپ بنائے پھرتے ہیں، نوکریاں فروخت کررہے ہیں، کمیشن کھا رہے ہیں، پیسہ کما رہے ہیں، کچھ پہلے کا کمایا اڑا رہے اور دبا رہے ہیں۔ ایسے ہی تربیت یافتہ کل ملک و قوم کی تقدیر کے مالک ہونگے تو ان سے قوم کی قسمت سنوارنے اور ملک کو ترقی و خوشحالی کا آفتاب و مہتاب بنانے کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ بڑے سیاسی خاندانوں کو اور کتنی دولت چاہئے؟ کیا صرف دولت ہی چاہئے، عزت، وقار اور عظمت نہیں؟ اولاد کیلئے سیاست کو کاروبار نہ بنائیں۔ جن بچوں کو سیاست میں لانا ہے ان کیلئے کاروبار کو شجرِ ممنوعہ قرار دیں۔ انکی بہترین تربیت اور اعلیٰ تعلیم کا اہتمام کریں۔ یہی ان کیلئے بہتر، آپ کیلئے بہتر اور ملک و قوم کے مستقبل کیلئے بہتر ہے۔ اگر گنگا کا دھارا اور مروجہ سیاست کا پرنالہ یونہی بہتا رہا تو جلاوطنی، دیس نکالا اور غریب الوطنی مقدر ٹھہرے گی۔ شہنشاہِ ایران جیسا انجام آپکے تعاقب میں رہے گا اور بالآخر اپنی لپیٹ میں بھی لے لیگا۔

Saturday, January 29, 2011

زین العابدین کے بعد حسنی مبارک اور پھر

ہفتہ ، 29 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
سلطنت عثمانیہ کی زوال پزیر معیشت سے سلطان عبدالحمید پریشان تھے۔ یہودیوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ترک یہودی قرہ صوہ آفندی کی قیادت میں ایک وفد نے سلطان عبدالحمید سے ملاقات کے دوران پیش کش کی کہ آپ فلسطین اور بیت المقدس یہودیوں کے حوالے کر دیں ہم سلطنت کے تمام قرض ادا کر دیں گے اور بھرپور مالی امداد بھی کریں گے۔ سلطان نے یہودیوں کی پیشکش یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ وہ ناخن کے برابر زمین بھی نہیں دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف سازشیں تیز ہو گئیں۔ پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی جس سے تاریخ بدلی اور بہت سے ملکوں کا جغرافیہ بھی۔ سلطنت عثمانیہ بھی بکھر گئی۔ مصطفیٰ کمال پاشا المعروف کمال اتاترک سامراج کا ایجنٹ ٹھہرا۔ اس کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا پروانہ قرہ صوہ آفندی لے کر سلطان عبدالحمید کے پاس پہنچا تھا۔ کمال اتا ترک کی والدہ یہودی تھی۔ اس کی تربیت میں باپ سے زیادہ ماں کا اثر تھا۔ اس لئے اتاترک نے مسلمانوں کیلئے تضحیک آمیز اور رسوا کن قوانین بنائے۔ علماءکو قتل کیا گیا‘ اذان اور عربی میں نماز اور تلاوت قرآن مجید پر پابندی لگا دی۔ حجاب نقاب اور اسلامی لباس کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا۔ نصاب سے اسلامی مواد خارج کر دیا گیا۔
تیونس کے صدر زین العابدین کی ماں اور باپ دونوں مسلمان تھے۔ انہوں نے محض اپنے اقتدار کے دوام اور طوالت کےلئے مغرب کی نقالی کرتے ہوئے اسلامی شعائر کا مضحکہ اڑایا۔ حجاب نقاب اور پردے کو سختی سے روکا گیا‘ اذان پر پابندی‘ نماز کی ادائیگی صرف مسجد میں ہو سکتی تھی۔ کھلے عام ادائیگی پر سزا دی جاتی‘ قرآن کو الماریوں کی زینت بنا دیا گیا۔ جمعہ کے خطبے میں صدر کی تعریف لازم تھی۔ داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ مردوں کو روایتی لباس گھٹنوں کے نیچے تک قمیض پہننے سے روک دیا گیا۔ امریکہ کی کاسہ لیسی میں ہمارے حکمرانوں کی طرح زین العابدین بن علی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آقا کی ہدایت پر 2005ءمیں امریکہ کے لے پالک اسرائیل سے دوستی کر لی۔ اس کے باوجود کہ اسرائیل نے 1986ءمیں یاسر عرفات کے تیونس میں واقع ہیڈ کوارٹر پر بمباری کی تھی۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ انسانیت اور مسلمانوں کے دشمن‘ جنگی مجرم ایریل شیرون کو اپنے ہاں مدعو بھی کر لیا۔ زین مغربی آقا ¶ں کی خوشنودی کی خاطر ان کے سامنے بے دام رقاصہ کی طرح ناچتا رہا مذہبی معاملات میں مداخلت پر تو تیونس کے شہریوں کا ضمیر نہیں جاگا۔ البتہ مہنگائی اور بیروزگاری پر تن من میں آگ لگ گئی۔ جس سے اس پر قہر اور غضب ٹوٹا تو اس کی اہلیہ لیلیٰ دیگر سامان کے ساتھ ڈیڑھ ٹن سونا لے کر دبئی چلی گئی۔ دوسرے دن زین کا جہاز بھی بے منزل پرواز کر گیا۔ زین کو زعم تھا کسی بھی ملک چلا جائے گا۔ سب سے پہلے فرانس نے رابطہ کرنے پر انکار کیا تو امریکہ بات کرنے کی کوشش کی اوباما نے فون سنا نہ اس کی انتظامیہ کے کسی عہدیدار نے۔ لندن سے بھی منفی جواب ملا۔ مراکش اور جنیوا نے بھی جہاز کا رخ اپنے ممالک کی طرف کرنے سے روک دیا تو اسے سعودی عرب یاد آگیا۔ سعودی حکمران عدی امین ہو یا نواز شریف ہر ٹھکرائے اور شکنجے میں آئے ہوئے مسلمان حکمران کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ دو عظیم ترین مساجد کی سرزمین پر زین العابدین اور اس کی بیگم اب پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں دونوں نے خود کو چشم زدن میں اسلامی ڈھانچے میں ڈھال لیا۔ لیلیٰ باقاعدہ عبایا پہنتی اور حجاب اوڑھتی ہے۔
امریکہ کے کرائے کے پُتر حسنی مبارک نے بھی مصر کو اتاترک اور زین العابدین کی طرح سیکولر بنا رکھا ہے۔ اس نے اپنی مذہبی خودداری اور خود مختاری امریکہ کے قدموں میں ڈھیر کر دی۔ جو فلسطینیوں کو دبانے میں اسرائیل کا معاون ہے۔ مصر نے ہی غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ تاہم لوگ مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آکر اب مائل بہ جنگ ہیں۔ یہاں بھی تیونس والی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اخوان المسلمین نے ساتھ دیا تو حسنی مبارک کو بھی شاید بھاگنا پڑے۔ بھاگ کر کہاں جائیں گے؟ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک شہنشاہ ایران کوپناہ دینے کے تجربے کے باعث کسی کو بھی پناہ دینے سے تائب ہو چکے۔ ان کا ٹھکانہ بھی جدہ میں ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں کا بھی ٹریک ریکارڈ مصر اور تیونس کے حکمرانوں جیسا ہے۔ مذہبی اور ملکی معاملات سمیت ہر حوالے سے۔ 100 رکنی کابینہ میں تلاوت کےلئے ایک بھی آدمی میسر نہیں۔ صلیبی جنگ میں یہود و نصاریٰ کا ساتھ دیا جا رہا ہے۔ پوپ کے اسلام دشمن بیان پر خاموشی‘ عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ امن عنقا ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ کسی بھی وقت لبریز ہو سکتا ہے۔ پھر ہمارے حکمران کہاں جائیں گے۔ جدہ۔ اس کےلئے بھی تیاری کر لیں۔ وضو کرنا سیکھ لیں۔نماز یاد کریں روزوں کی مشق کریں۔

Friday, January 28, 2011

خدمتِ خلق

جمعۃالمبارک ، 28 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
نوکری کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کرنل صاحب کی روٹین میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ شام کے وقت گاڑی لے کر نکلتے جہاں کہیں کسی مسافر کو بس سٹاپ یا ریلوے سٹیشن کے قریب ٹرانسپورٹ کا منتظر پاتے اسے گاڑی میں بٹھا کر منزل تک پہنچا دیتے۔ کرنل صاحب اس کو خدمتِ خلق کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کراچی کی آبادی آج کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم تھی۔ آج پاکستان کی آبادی سترہ کروڑ ہو چکی ہے۔ کم از کم ایک کروڑ کے قریب تو ملازمت پیشہ ہونگے۔ یہ سرکاری، پرائیویٹ اداروں یا چھوٹے موٹے کاروباروں کے ملازم صبح نوکری پر جانے کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں۔ کوئی سائیکل پر کوئی موٹر سائیکل اور کار پر، کوئی بس ویگن یا ٹرین پر، موٹر سائیکل اور کاروں پر جانے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ آپ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ تعداد 2 لاکھ ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ عموماً ایک موٹر سائیکل پر اور کار میں ایک ہی صاحب جا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بس سٹاپ پر مسافروں کا رش لگا ہوتا ہے۔ اگر آپ صرف ایک فرد کو لفٹ دے دیں تو گویا ملک میں کم از کم ڈیڑھ پونے دو لاکھ افراد کو بسوں اور ویگنوں میں دھکوں سے بچانے اور ان کو بروقت منزلِ مقصود تک پہنچانے کا اہتمام ہو گیا۔ آپ کا کچھ بگڑا بھی نہیں۔ لفٹ لینے والے کا کرایہ بھی بچ گیا۔ یہ مفت کی نیکی، انسانیت کی خدمت اور عظیم تر پاکستانیت ہے۔ آپ کے اس اقدام پر دوسرا شخص سراپا مشکور اور دعاگو ہو گا اور خود آپ طمانیت محسوس کریں گے۔ کسی کار والے دوست سے میں نے بات کی تو اس نے پوچھا آپ لفٹ دیتے ہیں؟ میں لاجواب ہو گیا۔ وہ کہنے لگا اس میں بہت رسک ہے آپ وقت پر اپنے گھر نہیں پہنچ سکتے نہ کام پر اور پھر یہ بھی خطرہ ہے کہ لفٹ لینے والا پستول دکھا کر نیچے اتار دے اور کار لیکر رفو چکر ہو جائے۔ اس لئے لفٹ دیتے ہوئے ’’بندہ کبندہ‘‘ دیکھ کر لیا کریں، بہتر ہے واقف کار کو لفٹ دیں۔
آٹھ نو سال قبل سرگودھا جانا ہوا، ہسپتال کے سامنے شہر جاتے ہوئے چوک میں گاڑی بند ہو گئی، صاحبزادے کو کہا کہ گاڑی سائیڈ پر کرنے کے لئے تھوڑا دھکا لگا دے، چھٹی جماعت کا لڑکا کیا دھکا لگا سکتا ہے۔ بہرحال وہ باہر نکلا پورا زور لگایا گاڑی ہلکی سی ہلی کہ اس دوران ایک بڑی گاڑی سے تین کلف لگے کپڑوں میں ملبوس قوی الجثہ افراد نکلے۔ ان کے لائن آف ایکشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ انہوں نے گاڑی کو زوردار دھکا لگا کر سٹارٹ کرا دیا اور شکریے کے الفاظ سنے بغیر چل دئیے۔ ان کے لئے آج بھی دل میں احترام کے جذبات ہیں۔
دو ہفتے قبل شدید سردی تھی۔ ایک رات رضائی کے ساتھ کمبل بھی اوڑھنا پڑا۔ لاہور کراچی اسلام آباد پشاور کوئٹہ فیصل آباد اور ایسے ہی بہت سے شہروں میں فٹ پاتھوں، ریلوے سٹیشن کے شیڈوں، لاری اڈے کی بند دکانوں کے برآمدوں میں رات کو لیٹے غربت کے مارے لوگوں کا خیال آیا تو سردی کی لہر ریڑھ کی ہڈی اور روح تک پہنچتی محسوس ہوئی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ ہمارے جیسے انسان ہیں۔ کوئی مسافر ہے تو کوئی مزدور، بہت سے ایسے خوددار جو گھر سے شاپر میں اچار یا مرچ لے کر آتے ہیں، دن کو مزدوری کی رات کو تندور سے دو روٹیاں خرید کر کھائیں اور جہاں جگہ ملی سو گئے۔ ہمارے ہاں بڑی بڑی این جی اوز ہیں، مذہبی اور سماجی تنظیمیں ہیں۔ ایسے بے بس، بے کس اور خوددار لوگوں کے لئے کم از کم رات کو سونے کا کوئی مناسب انتظام کیوں نہیں کر دیتے۔ مخیر حضرات بھی اس کار خیر میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ مہمان خانے نہ بنائیں کھلے شیڈ بنا دیں وہاں بیڈ کرسیاں میز رکھنے کی ضرورت نہیں، بنچ رکھ دیں تو بہتر، ویسے اس تکلف کی بھی ضرورت نہیں، چھت کے ساتھ صرف پانی اور باتھ رومز کا انتظام کر دیا جائے۔ حکومتی سطح پر اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے تو کیا کہنے۔ وزرائے اعلیٰ کے سیکرٹریٹ اور گورنر ہائوسز ایکڑوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ شہروں میں اتنی سرکاری زمین ہے کہ بااثر لوگ قبضے پہ قبضہ کئے چلے جا رہے ان میں سے کچھ حصہ عظیم تر انسانی فلاحی منصوبے کے لئے مختص کر دیا جائے۔

Thursday, January 27, 2011

جنازہ ایکسپریس

 جمعرات ، 27 جنوری ، 2011

فضل حسین اعوان ـ
لاہور جیسے پنجاب کے کئی شہروں کی طرح فیصل آباد میں بھی مسلم لیگ ن کا ہولڈ ہے۔ 2008ء کے الیکشن میں مسلم لیگ نے فیصل آباد میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ کچھ میاں صاحبان کے نام پر اور کچھ رانا ثناء اللہ خان کی مونچھوں کے زور پر۔ یوں تو چودھری ظہیرالدین جو کبھی رانا ظہر الدین ہوا کرتے تھے، اُن کی بھی مونچھیںلارجیت اور جارحیت میں کم نہیں لیکن وہ نہ رنگنے کی وجہ سے سفید ہو گئیں تو شاید اس علاقے کے ووٹر کا سفید خون کی طرح احساس بھی سفید ہو گیا۔ ماضی کے رانا حال کے چودھری اور مستقبل کے ممکنہ میاں ظہیر الدین کی اپنی سیٹ تو بچ گئی تاہم ق لیگ کو فیصل آباد سے دیس نکالا مل گیا۔ چودھری ظہیر بڑے کام، نام ،دام اور پرنام کے سیاستدان ہیں۔ بڑی بات ہے کہ ق لیگ کے خالی دامن سے وابستہ ہیں۔ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہیں یا امید بہار رکھتے ہوئے کسی شجر سے پیوستہ ہیں۔ سیاست میں چونکہ کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ الیکشن بھی سمجھئے سر پر ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کی مراعات ختم ہو جائیں گی۔ پھر رڑا میدان، پانی کے بغیر مچھلی، رخ انور واپس مسلم لیگ ن کی طرف ہو سکتا ہے۔ بات رانا سے چودھری تک آئی پھر آفتاب زرین اور زری کے طلوع تک میاں تک پہنچ جائے گی۔ فیصل آباد کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا پھر مسلم لیگ ن کی گود بنا، گزشتہ سے پیوستہ الیکشن میں ق لیگ کی آغوش بن گیا۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں پھرمسلم لیگ ن کا اجارہ ہے۔ خاص طور پر شہر میں لیکن یہاں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی۔ اعجاز ورک کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد میں طویل تر قیام کے بجائے اپنے حلقے میں اپنے ووٹر کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ وکلاء برادری ان پر اعتبار یہ اُس پر انحصار کرتے ہیں۔ مخالفین نے ان کو جنازہ ایکسپریس کا نام دیا ہوا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ کہ وہ کسی کی خوشی میں شامل ہوں، نہ ہوں غمی کے موقع پر ضرور شریک ہوتے ہیں۔ حریف جہاں تک کہتے ہیں کہ ورک صاحب نے گورکنوں کو موبائل لے کر دیئے ہوئے ہیں۔ اِدھر قبر کا آرڈر آیا اُدھر انہوں نے ایم این اے صاحب کا نمبر ملایا۔ ان کی خصوصی توجہ سے ان کے حلقے کی ہر جناز گاہ میں وضو کے لئے پانی اور روشنی کا باقاعدہ انتظام کر دیا گیا ہے۔ اس ایریا کو تجاوزات سے پاک اور صاف ستھرا رکھا جاتا ہے۔
عوام مشرف کی پالیسیوں سے نالاں اور ان کے حاشیہ برداروں کی طرزِ حکمرانی سے پریشاں تھے۔ فروری2008ء میں ووٹ کی طاقت سے مشرف کے کاسہ لیسوں سے پیچھا چھڑایا پھر نواز شریف سے مل کر زرداری صاحب نے مشرف کو بھی ایوان صدر سے مار بھگایا۔ عوام کو جمہوری حکمرانوں سے بڑی توقعات تھیں۔ خوشحالی اور امن کی بحالی کی اس۔ آنگن میں بہاریں، کہکشائیں، رنگ و نو اور روشنیوں کے اترنے کی تمنائیں تھیں لیکن خرائیں اور تاریکیاں مقدر بن گئیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ احساس بڑھتا گیا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو رہا ہے آج یقین ہو گیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہو چکا ہے جن سے دکھوں کے ازالہ کی امید تھی وہ دردوں اور تکلیفوں میں اضافہ کئے جا رہے ہیں۔ مشرف کی پالیسیوں پر دل و جان سے عمل جاری ہے، لوگ مر رہے ہیں۔ بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور خواتین کے جنازے اٹھ رہے ہیں ۔ کراچی اور بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ سے لاشے بکھرتے ہیں تو قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور آپس کی لڑائی سے۔ باقی کسر خود کش حملوں سے پوری ہو جاتی ہے۔ پورے ملک میں کہیں علاج نہ ہونے سے جنازہ اٹھتا ہے کہیں بیروز گاری اور غربت سے تنگ آ کر اپنے ہاتھوں جان لینے والوں کا۔ ارد گرد دیکھئے سہرا بندی سے زیادہ کفن بندی کا اہتمام ہوتا ہے۔ جنازے دیکھ کر بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے خدایا ہم نے جن کو مسیحا سمجھ کر منتخب کیا وہ لاشوں اور جنازوں کے سوداگر اور بیوپاری نکلے۔ زیادہ ہلاکتیں ڈرون خود کش اور بم دھماکوں سے ہوتی ہیں، جنازوں اور لاشوں کے بیوپاری اس جنگ سے پاکستان کو الگ کر لیں تو یقینا باراتیں زیادہ چڑھیں جنازے کم اٹھیں۔

گورنر زکریا۔ بسنت اور حقیقت

26-1-11
فضل حسین اعوان ـ 
مسلمان نوجوان کے مقدمے نے حاکم وقت جو جج منصف اور قاضی بھی تھا، کو چکرا کر رکھ دیا۔ آغا کے نام سے موسوم نوجوان نے فریاد کی کہ اس نے فلاں عورت کو مسلمان کر کے اس سے نکاح کیا۔ اس کا ہندو خاوند اب اسے میرے ساتھ بھجوا نہیں رہا۔ عورت سے پوچھا گیا تو اس نے اس واقعہ کا سرے سے انکار کر دیا۔ خاوند اور دوسرے گھر والوں نے کہا جس دن نکاح کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اس دن خاتون گھر سے باہر نکلی ہی نہیں۔ بہت سے لوگوں نے گواہی دی کہ ایک خاتون ہمارے سامنے مسلمان ہوئی اور ایجاب و قبول بھی ہوا۔ آغا نے کہا کہ شادی کے روز جو ملبوسات اور زیورات پہنائے گئے اور پری چہرہ اور حسن و جمال کی دیوی ساتھ لے گئی تھی۔ گھر کی تلاشی لی گئی تو ملبوسات اور زیورات مل گئے۔ حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کے لئے قاضی نے ایک رات عورت کے محلے کا بھیس بدل کر گشت کیا تو لوگوں کو اس عورت کی شرافت کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے پایا آغا کے محلے میں اسے شرارتی مکار اور خوبصورت عورتوں کو ورغلا کر ان کی عزتوں کو داغدار کرنے والا بھنورا قرار دیا جا رہا تھا۔ لیکن اسلام قبول کرنے اور نکاح کا معاملہ اور خاتون کے گھر سے ملبوسات اور زیورات ملنا ہنوز معمہ تھا۔ منصف کے ذہن میں اچانک ہندو خاندان کی دھوبن کا خاکہ ابھرا۔ حاکم وقت نے اسے دربار میں طلب کیا۔ تھوڑی سی سختی کرنے پر اس نے اقرار کر لیا کہ آغا کے لالچ دینے پر اس نے ہندو گھرانے میں کپڑے اور زیورات رکھے تھے۔ جب مولوی صاحب خاتون کو مسلمان کر رہے اور نکاح پڑھا رہے تھے تو تن ڈھانپے وہی وہاں بیٹھی تھی۔ اس پر آغا اور دھوبن دونوں کو پھانسی لگا دی گئی۔
یہ حاکم جج اور قاضی نواب محمد زکریا خان تھے جو مغلیہ دور میں 1726ء سے 1745ء تک لاہور کے گورنر رہے۔ وہ نہایت بہادر، دور اندیش، صلح جُو، انصاف پرور حکمران اور پکے مسلمان تھے۔ زکریا خان کے کردار اور انصاف کے باعث ہندو، مسلمان اور سکھ سب شیر و شکر تھے۔ ان کے دورِ اقتدار میں فرقہ ورانہ فسادات کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ ان کے دور میں رعایا خوشحال اور مالامال تھی۔ 1738ء میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے ہندوستان پر یلغار کی۔ زکریا خان کو پتہ تھا وہ کتنے پانی میں ہے اس نے مقابلے کی تیاری ضرور کی تاہم دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے نادر شاہ کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا۔ نادر شاہ نے ملاقات کی اور 30 لاکھ روپیہ نذرانے کے عوض زکریا خان نے 5 لاکھ لاہوریوں کو تباہی و بربادی سے بچا لیا۔
ایک دن زکریا خان کے پاس سیالکوٹ سے ایک مقدمہ آیا۔ جو اس کی دور اندیشی، صلح جوئی، مذہبی یکجہتی و ہم آہنگی کیلئے چیلنج تھا۔ ایک ہندو کھتری کے اکلوتے بیٹے حقیقت رائے جس کے ننھیال سکھ تھے نے حضورؐ اور حضرت فاطمہؓ کی شان میں گستاخی کی تھی۔ زکریا خان نے اسے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ اس پر ہندو، سکھ افسر اور اشرافیہ نے دربار میں حاضر ہو کر سزا معاف کرانے کی پوری کوشش کی۔ زکریا کو پتہ تھا کہ یہ ایک نازک اور حساس معاملہ ہے۔ غیر مسلم رعایا بپھر سکتی ہے اور ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے مگر زکریا خان ناموس رسالت اور عشقِ رسولؐ پر سمجھوتہ کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ مجرم کو پہلے درخت سے باندھ کر کوڑے لگوائے اور پھر اس کی گردن اڑا دی۔ حقیقت رائے کی مڑھی کوٹ خواجہ سعید لاہور میں ہے جس پر ہر سال بسنت میلا ہوتا ہے۔ یہ روایت کالورام نے شروع کی۔ بسنت حقیقت رائے کی یاد میں ہندو اور سکھ مناتے ہیں۔ آج اسی بسنت کو ہم نے اپنے کلچر کا حصہ بنا لیا ہے۔ نادانستگی میں ہم نے جو بسنت منا لی وہ منا لی۔ اب جبکہ علم ہو گیا ہے کہ یہ گستاخِ رسول کی موت کا دن منانے کی یاد میں منائی جاتی ہے تو اس سے احتراز اور انکار لازم ہو گیا ہے۔ اب فروری کی آمد آمد ہے جس میں بسنت منائی جاتی ہے۔ مسلمان ملک میں بسنت کوئی بھی منائے اس کی وجہ تخلیق کے باعث اسے جبری روک دینا ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔ بسنت منانے کی ضد کرنے والے روشن خیال کچھ اوپر اور کچھ باہر چلے گئے۔ پنجاب میں شریفوں کی حکومت ہے لیکن وہ اتنے بھی شریف نہیں کہ کسی کو بسنت کے نام پر بدمعاشی کرنے دیں۔ ویسے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہمیں خود کو کالورام کہلانا پسند ہے یا نواب زکریا خان کی طرح عاشق رسولؐ بننا۔

Tuesday, January 25, 2011

رائٹ سائزنگ


25-1-11
فضل حسین اعوان
وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے جادو کی چھڑی لہرا دی۔ اب دیکھتے ہی دیکھتے ملک ترقی اور عوام خوشحالی کی منزلیں طے کرتے ستاروں پہ کمند ڈالتے نظر آئیں گے۔ ترقیاتی بجٹ میں 100 ارب روپے کٹوتی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کی ہے۔ اب دیکھئے 100 ارب روپیہ کہاں جاتا، کس کو خوشحال بناتا کن کو ستاتا رلاتا ہے اور 100 ارب کی کمی اس رقم سے کی گئی ہے جو عوامی بہبود اور ترقیاتی کاموں کے لئے تھی۔ اس سے حکومت نہیں جن کاموں اور جن لوگوں کی فلاح کیلئے تھی وہ متاثر ہونگے۔ آر جی ایس ٹی کی اپوزیشن تو درکنار خود حکومتی حلقوں اور اتحادیوں نے بھی مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے اس کے ہر صورت نفاذ کا عزم ظاہر کیا ہے۔ آپ عوامی مسائل اور مشکلات سے نابلد آدمی کو پکڑ کر عوام کی گردن پر سوار کر دیں گے تو وہ ایسے ہی جذبے عزائم کی تکمیل کرنے کی اپنی سی کوشش کریگا۔ جیسے موجودہ وزیر خزانہ کر رہے ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ کو سینیٹر بنوا کر وزیر خزانہ لگا دیا گیا۔ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر آتے تو شاید عام آدمی کی مشکلات کا کچھ احساس ہوتا۔ ترقیاتی کاموں میں نقب لگا کر 100 ارب کی بچت، 3 ارب کی لاگت سے پارلیمنٹ لاجز کی تعمیر کے لئے امریکی طرز کا منصوبہ جاری۔ عجب شوقین مزاج وزیراعظم ہیں کابینہ کا اجلاس کبھی سمندر میں بحری جہاز پر، کبھی گورنر ہاﺅس لاہور میں۔ صدر اور وزیراعظم کے دورے پر دورے۔ آٹھ ماہ قبل بھی خراب معاشی صورت حال کو سہارا دینے کے لئے پارلیمنٹیرنز کے غیر ملکی دوروں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ وہ اب چپکے سے اٹھا لی گئی ہے۔ کیا دہرا معیار دوغلا پن اور فریب۔ ایک طرف اخراجات میں کٹوتی دوسری طرف پارلیمنٹیرنز پر قومی خزانے سے نوازشات، وزیر خزانہ نے کراچی میں صنعت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے یہ الزام بھی لگا دیا کہ بااثر افراد نے سیاستدانوں سے مل کر جی ایس ٹی کے خلاف مہم کی فنانسنگ کی۔ عام آدمی تو سمجھتا تھا کہ ان کے نمائندے ملک و قوم کی بے لوث خدمت کے جذبے کے تحت آر جی ایس ٹی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ انہوں نے یہ کام بھی بااثر افراد کی فنانسنگ سے کیا۔ اگر یہ اب جی ایس ٹی پر ہاں کرتے ہیں تو سمجھا جائیگا کہ حکومت نے بااثر افراد سے بھی زیادہ فنانسنگ کر دی ہے۔ وزیر خزانہ نے غلط کہا ہے تو عوامی نمائندے اس الزام کو ہضم نہ کریں۔ حفیظ شیخ نے یہ فرما کر عوام، نوازشریف اور الطاف کو مخمصے اور امتحان میں ڈال دیا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے مگر یہ مجبوری ہے۔ لوگ تو تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کی توقع رکھتے تھے وزیر خزانہ نے اس پر پانی پھیر دیا۔ ساتھ ہی منافع خور پٹرول پمپ مالکان کل سے تیل کی قلت پیدا کرنا شروع کر دیں گے۔ پھر پٹرول پمپوں پر لائنیں، شور شرابا اور آپا دھاپی کے مناظر نظر آئیں گے۔ وزیر خزانہ کا یہ فرمان تو سنہری حروف میں قلمبند کرنے کے قابل ہے کہ 2005 سے مہنگائی میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہم نے 12 سے 13 فیصد کمی کر دی۔ بتائیے کس چیز کی قیمت میں 10 بارہ فیصد کمی ہوئی۔ صرف تیل کی قیمت میں اس ماہ، وہ بھی اپوزیشن کی طرف سے حکمرانوں کی دم پر پاﺅں رکھنے کے باعث۔ ہو سکتا ہے کہ جس سٹور سے ہمارے حکمران خریداری کرتے ہیں وہاں ان کو مذکورہ رعایت دی جاتی ہو۔ اب اگلی بچت کے حوالے سے اقدامات کا سن لیجئے۔ کائرہ کہتے ہیں وفاقی کابینہ میں ”رائٹ سائزنگ“ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کابینہ جس ”رانگ سائزنگ“ کی ہے اس کے مطابق رائٹ سائزنگ ہو تو کچھ فائدہ بھی ہے۔ اگر صوبوں کو منتقل ہونے والے محکموں کے وزیروں کو اِدھر ا ±دھر کر کے رائٹ سائزنگ کا واویلا کرنا ہے تو اس کا فائدہ؟ 96 رکنی کابینہ رانگ سائزنگ ہے، زیادہ سے زیادہ 25 رائٹ سائزنگ کہا جا سکتا ہے۔ زرداری صاحب لیں الہ کا نام۔ رائٹ سائزنگ فرما دیں۔ کم از کم یہ ایک تو قوم پر احسان ہو گا۔ رائٹ سائزنگ کی بات وزیر اطلاعات کائرہ نے کی تھی۔ اگلے دن گیلانی صاحب نے بہت سے لوگوں کی خوش فہمی اور خوش گمانی یہ کہہ کر کافور کر دی کہ وفاقی کابینہ میں ردوبدل ہو گا، ڈاﺅن سائزنگ کا ابھی مرحلہ نہیں آیا… خدا جانے وہ مرحلہ کب آئے گا۔ آئے گا بھی یا نہیں؟ وزیراعظم اور ان کے وزرائ گھر سے نکلتے وقت یہ تو طے کر لیا کریں کہ باہر جا کر کیا کہنا ہے۔ کم از کم کابینہ کے ارکان کے بارے میں تو لوگ یہ نہ کہیں کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔

شکم پروری


24-1-11
فضل حسین اعوان
کرائے کے بجلی گھر لگ رہے ہیں۔ کراچی میں ترکی کا شپ بندرگاہ پر لنگر انداز ہو کر بجلی کی پیداوار دے رہا ہے۔ گرمیوں کی نسبت سردی کے موسم میں بجلی کم استعمال ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بھی بجلی کی علانیہ سے زیادہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ کرائے کے بجلی گھروں سے 14 اور شپ سے 18 روپے یونٹ بجلی پڑے گی۔ حکومت نے یہ قیمتیں لاگو کر دیں تو اتنی مہنگی بجلی استعمال کون کرے گا؟ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ عام آدمی میں تو موجودہ قیمتیں برداشت کرنے کی بھی سکت نہیں ہے۔ پاور پلانٹس 5 سالہ کرائے پر حاصل کئے گئے ہیں۔ ان کے معاہدوں اور تنصیب میں شفافیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ہی پلانٹ کی دو جگہ تنصیب ظاہر کرکے اربوں روپے کی ادائیگی کر دی گئی۔ دو سال قبل دو کھرب روپے کے پلانٹ کرائے پر حاصل کئے گئے۔ نوید سنائی گئی کہ ان تنصیب سے بجلی کی قلت پوری ہو جائے گی۔ آپ 2 کھرب کے بجائے 20 کھرب کے پلانٹ خرید لائیں جب تک نیت مسائل حل کرنے کی نہیں ہو گی یہ بھی بجلی کی کمی پوری نہیں کر سکتے۔ ملکی اور عالمی مافیا مل کر انرجی کے وافر حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پانی سستی اور آسان ترین طریقے سے بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس ذریعے کو بروئے کار لایا جائے تو تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ اس سے تیل کی کھپت کم ہو جائے گی۔ جو کچھ حلقوں کو گوارہ نہیں۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی راہ میں یہی لوگ رکاوٹ ہیں۔ ہم سعودی عرب سے سستا تیل حاصل کرتے ہیں وہ بھی امریکی کمپنی آرامکو کے ذریعے پاکستان پہنچتا ہے۔ اگر تیل کی کھپت ہی نہ رہے گی تو ان کمپنیوں کا کیا بنے گا اور ان لوگوں کے بچوں کی روزی کیسے پوری ہو گی جنہوں نے اپنی قسمت ان بیرونی آقاو ¿ں کے کاروبار سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ خدا ہمیں محب وطن‘ عام آدمی کیلئے درد دل اور قوم و ملک کیلئے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھنے والے حکمران مرحمت فرمائے‘ کمشن مافیا طویل المیعاد منصوبوں کی بجائے‘ ڈنگ ٹپاو ¿ پالیسیاں بنانے والوں سے نجات دلائے تو انرجی کے بحران پر نہ صرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ ایران‘ ترکی اور چین کی طرح پاکستان کئی ممالک کو بجلی برآمد بھی کر سکتا ہے۔
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے بے شمار ذرائع ہیں۔ ان پر مختصراً نظر ڈالتے ہیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات بڑھا چڑھا کر بھی پیش کی جائیں تو 20 ہزار میگاواٹ سے بہت کم ہیں۔ سمندر‘ دریاو ¿ں‘ نہروں اور ڈیمز پانی سے ایک لاکھ میگاواٹ سے زائد ڈیڑھ روپے فی یونٹ لاگت سے پن بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اوسط 12 گھنٹے سورج کی روشنی دستیاب ہے۔ اگر اسے استعمال کیا جائے ایک روپے فی یونٹ سے بھی کم خرچ سے 6 لاکھ میگاواٹ سولر انرجی میسر ہو گی۔ پاکستان میں اب تک دریافت ہونے والے کوئلے کے ذخائر سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی 8 سو سال تک تین روپے یونٹ ملتی رہے گی۔ کوڑا کرکٹ جو ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کوڑے سے ایک لاکھ میگا واٹ بجلی اور وافر مقدار میں ڈیزل اور مٹی کا تیل حاصل ہو گا۔ اس کے علاوہ نیو کلیئر انرجی سے پچاس ہزار میگاواٹ شوگر ملوں کے پھوک سے ہزاروں واٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ … شوگر ملز مالکان عوامی اور قومی خدمت سے زیادہ منافع پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ گنے کا فضلہ بھی چینی کے بھاو ¿ فروخت کریں گے۔ زمین سے بھاپ کے ذریعے پن بجلی سے بھی سستی انرجی کا حصول ممکن ہے۔ اس پاور پراسس کے ذریعے 35 ہزار میگاواٹ فراہم ہو سکتی ہے۔ خدا نے ہمیں وسائل دئیے اور ماہرین بھی موجود ہیں۔ اس سے ہم خود فائدہ نہ اٹھائیں تو قدرت کا نہیں ہمارا اپنا قصور ہے۔ معاملات اس شعبہ کے کرتا دھرتاو ¿ں کی نااہلی اور نالائقی نہیں ان کی شکم پروری اور بدنیتی کے باعث ان کے سیاہ دل کی مانند کالا بھوت بن چکے ہیں۔

Sunday, January 23, 2011

خصوصی نشستیں

اتوار ، 23 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
ہمارے ہاں مروجہ سیاست ایڈونچر اور عجب کھیل ہے یہ کسی کیلئے قارون کا خزانہ اور اکثر کیلئے کنگلے اور کنگال ہونے کا بہانہ وشاخسانہ ہے۔قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی الیکشن میں ایک ایک سیٹ پر کئی کئی بعض پر درجنوں امیدوار بھی کیل کانٹے سے لیس ہوکر میدان میں اترتے ہیں۔ مہم کے دوران دن دیکھتے ہیں نہ رات،صبح و نہ شام، ان تھک محنت، بھرپور کوشش اور بے جا اخراجات کرکے بھی نگاہ ووٹر کی نظرالتفات کی منتظر ہوتی ہے۔جیتتا صرف ایک امیدوار ہے۔باقی کی انتخابی مہم میں چٹخی اور کڑکی ہڈیوں اور بے بہاو بے جاسرمایہ کاری کاکوئی مول نہیں پڑتا۔گھر پھونک کر ہارنے والے امیدوار اگلے الیکشن میں کامیابی کی امید کے چراغ جلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جیتنے والا امیدوار سرکاری فنڈ حلقے میں لگا کر اپنی سیٹ پکی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسے ووٹر کو قابو میں رکھنے کیلئے کئی جتن کرنا اور پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ پورے حلقے میں خوشی غمی میں شرکت، تھانے کچہریوں میں ووٹر کی مدد بھی اس کے فرائض منصبی میں شامل ہوتی ہے۔ جو صرف اپنی کامیابی و کامرانی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔فنڈ لے کر ٹھنڈ رکھ لیتا ہے حلقے میں اپنی شکل نہیں دکھاتا ہے ۔اگلے الیکشن میں لوگ ووٹ کی پرچی سے اس کے منہ پر کالک مل دیتے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ کہ مروجہ سیاست یعنی انتخابی سیاست جان جوکھوں کا کام ہے۔یہ الگ موضوع ہے کہ جیتنے والوں کی اکثریت اگلی پچھلی تمام کسریں نکال لیتی ہے لاکھوں لگانے والا کروڑوں اور کروڑوں کھپانے والا اربوں روپے کی کمائی کرتا ہے۔
ہماری اسی سیاست میں ایسے دروازے بھی ہیں جو سیدھے جنت کی ہوائوں اور فضائوں کے نظارے کرادیتے ہیں۔بغیر کسی محنت کوشش،خجل خواری دوڑ دھوپ اور تگ ودو کے گنگا جل،دودھ اور شہد کی نہروں تک دسترس ہوجاتی ہے۔ یہ قسمت کے دھنی سینٹر اور خصوصی نشستوں کی حامل خواتین ہیں۔ ہمارے ہاں جماندرو یعنی پیدائشی سینٹر بھی پائے جاتے ہیں۔جن کو ان کی پارٹی متواتر جتائے چلی جاتی ہے اسی راستے سے کئی صدارتی منصب تک بھی جاپہنچے ،اہم وزارتیں ہر دور میں ان کی راہ میں کہکشائیں بنی رہتی ہیں۔ سینٹر بننے کیلئے پارٹی سربراہ کا معتمد ہونا ہی کافی ہے۔ البتہ اپنی مدد آپ کے تحت سینٹر بننے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ فاٹا سے رکن قومی اسمبلی کامران خان نے اعتراف سے زیادہ انکشاف کیا ہے کہ سینٹ کے انتخاب میں ووٹ دینے کیلئے ان کو اڑھائی کروڑ روپے ملے تھے۔ ایم این اے صاحب نے اتنی بڑی شرم کی بات کتنی بے شرمی سے کہہ دی۔ایک شخص جب پندرہ کروڑ لگا کے سینٹ میں آئیگا تو کیا خیال ہے،رقم پوری بلکہ دگنا تگنا یا اس سے بھی زیادہ کرنے کیلئے اودھم نہیں مچائے گا پھر اس سے قومی خزانے کو کون بچائے گا ۔حکومت کو بکائو مال درکار۔ ان کو خریدار کا انتظار۔فاٹا کے ایم این ایز اڑھائی تین کروڑ روپیہ سینٹر سے بٹورتے اور اس سے کہیں بڑھ کر حکومت سے ماٹھتے ہیں۔وزیراعظم نے نہ جانے کس بحران سے نبردآزما ہونے کیلئے ترقیاتی فنڈز کے نام پر فاٹا کے ارکان کو تین تین کروڑ روپے دینے کی منظوری دی ہے۔
پنجاب میں خصوصی نشستوں والی خواتین نے بھی ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ اپنا حلقہ دکھائیں اور فنڈز پائیں۔خصوصی نشستوں پر آنیوالی خواتین کو خود ان کے ساتھی ہی مکمل رکن نہیں سمجھتے عموماً ان کونفرت اور حقارت سے دیکھتے ہیں اور اظہار بھی کرتے ہیں ان کا کرائی ٹیریا کیا ہے۔ پارٹی کی لیڈر شپ سے رشتہ داری ،سفارش یا پارٹی سے وفاداری اور خدمت۔ کیا پارٹی سے وفاداری خدمت کرنے اور مار کھانے والی تمام خواتین کو خصوصی نشستوں پر اکاموڈیٹ کیاجاتا ہے؟ اہلیت نظر انداز، ڈگری بھی نہیں دیکھی گئی ۔یہ قانون سازی سے زیادہ گالم گلوچ اور جوتا بازی کرتی ہیں، بعض جعلی ڈگری والی گھس گئیں۔ بہر حال خوش قسمت ہیںجن کے سرپر جیسے بھی ہے ہما بیٹھ گیا۔کوئی ان کو اپنے برابر سمجھے یا نہ سمجھے یہ ممبران اسمبلی تو ہیں۔ اگر ہیں تو ان کو مراعات بھی دوسروں کے برابر دیں۔البتہ گرم و سرد کا اندازہ کرنے کیلئے کسی بھی پارٹی رکن کیلئے خصوصی نشست مراعات اور انعامات نہیں ہوناچاہئے۔ فردوس عاشق اعوان نے خصوصی نشستوں پر آنیوالی خواتین کے بارے میں جو کہا وہ ان خواتین اور ان کے والدین کیلئے لمحہ فکریہ ہوناچاہئے۔ایسے کام، کاروبار، جعلی قدرو منزلت اور عہدے پر لعنت بھیجنی چاہئے جو آپ کیلئے بندگی کے بجائے شرمندگی کا باعث بن جائے۔جمہوریت پر یقین رکھنے والی خواتین خیرات اور بخشیش کی نشستیں حاصل کرنے کے بجائے اسمبلیوں میں بل پیش کریں کہ خواتین کا انتخاب بھی براہِ راست ووٹ کے ذریعے ہو جس کیلئے الگ سے حلقہ بندی کی جائے پھر ان خواتین کوترقیاتی فنڈز بڑے وقار کے ساتھ مل جایا کریں گے۔ سینٹ کی نشست کو بھی انعام نہیں بناناچاہئے ان کے بھی براہِ راست انتخاب کا کوئی طریقہ نکالاجائے تاکہ جماندرو سینٹروں کو بھی سیاست میں اونچ نیچ کا پتہ چل سکے۔

Saturday, January 22, 2011

لائنیں

ہفتہ ، 22 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
یہ ہماری شامتِ اعمال ہے، خدا کی طرف سے وبال ہے یا خود ہمارے ہاتھوں سے تراشے ہوئے حکمرانوں کا کمال ہے کہ قوم لائن میں لگی ہے۔ دور بہت تیز ہو گیا۔ مصروفیت ہی مصروفیت، بڑے ضروری کام رہ جاتے ہیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے کئی مصروفیات سمیٹنا پڑتی ہیں۔ لیکن لائن میں لگنے کےلئے ٹائم نکالنا ناگزیر ہے۔ کون ہے جو دعویٰ کرے کہ وہ کبھی لائن میں نہیں لگا۔ وہی لائن میں نہیں لگا جو زندگی کے ہاتھوں کھڈے لائن لگا ہے۔ کبھی سینما گھروں میں ٹکٹ کے لئے لائنیں لگتی تھیں۔ اپنی مونچھوں کے برابر ہنٹر لہراتا ہوا کڑیل نوجوان لائن مینی کے فرائض انجام دیتا تھا۔ آج عموماً کوڑا برداروں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم خود ہی نظم و ضبط کے پابند ہو گئے ہیں۔ کوئی غیر ملکی صرف ہماری لائنیں دیکھ کر ہمیں دنیا کی منظم ترین قوم قرار دے دیگا۔ ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ کے لئے لائن، پھر ٹکٹ چیک کرانے اور گاڑی تک پہنچنے کے لئے لائن۔ گھی، آٹا اور چینی کے حصول کے لئے یوٹیلٹی سٹور اور خصوصی بازاروں میں لائن، بجلی گیس اور پانی ہے یا نہیں، کم ہے یا زیادہ، بل تو ہے ہر ماہ، بلاناغہ۔ یہ بل جمع کرانے کے لئے لائن۔ پاسپورٹ شناختی کارڈ بنوانے کے لئے لائن۔ ائرپورٹ پر لائن در لائن، طلباءکی فیس داخلے جمع کرانے اور فارموں کے لئے لائن۔ کیا ڈسپلن قائم کیا ہماری سرکار نے۔ محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ کم از کم لائن کی حد تک تو امیر و غریب کا فرق ختم ہو گیا۔ لائن بھی ایک ذمہ داری اور ضرورت بن گئی، جس طرح ضرورت ایجاد کی ماں ہے لائن بھی اسی طرح حرزِ جاں ہے۔ تین بچوں کا باپ کسی سے کہہ رہا تھا۔ ایک بیٹے کو پُلسیا بنا دیا دوسرے کو لوٹ مار پر لگا دیا۔ آپ غلط سمجھے سیاستدان، وزیر مشیر بینکار اور افسر بنا کر نہیں چھوٹی موٹی چوری اور رہزنی یا پاکٹ ماری کی صورت میں۔ تیسرا مسیتڑی ہے کاش چوتھا ہوتا تو لائن مین لگا دیتا۔ لائنیں لگانے سے جہاں قوم میں ڈسپلن آیا وہیں اعصاب اور جسم و جان بھی مضبوط ہوئے۔ لائنوں میں حضرات ہی نہیں نازک بدن غنچہ دھن، مہ وش پری وش خواتین کو بھی لگنا پڑتا ہے۔ گیس اور پٹرول کی قلت نے لائنوں کا نیا رجحان پیدا کیا ہے۔ سی این جی سٹیشنوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ سی این جی سٹیشن بے شمار ہیں لیکن گاڑیوں کی تعداد بھی لاتعداد، اس لائن سے نکل کر ٹریفک سگنل پر لائن۔ کسی گاڑی نے بریک لگا دی تو سڑک پر لائن، کہیں سڑک زیر تعمیر ہے۔ سڑک پر کھڈا ہے وہاں بھی لائن۔ کہیں کسی وجہ سے اور کہیں بلاوجہ لائن۔ ٹریفک کی لائنوں کا بڑا سبب ایک ہی ہے۔ گاڑیاں سڑکوں پر قطار اندر قطار آ گئی ہیں۔ آپ چوک یا سڑک پر کھڑے ہو ملاحظہ فرمائیے چند منٹ میں سینکڑوں کاریں آپ کی نظروں کے سامنے گزریں گی۔ ان میں چند ایک کے سوا تمام میں صرف ایک بندہ ہو گا۔ ایک کار میں ایک سوار، کچھ خوشی اور کچھ مجبوری سے۔ گھر سے دفتر تک بس یا ٹرین ملے تو یقیناً 90 فیصد سے زائد کار اور موٹر سائیکل سوار انہیں پر سفر کریں۔ بڑے شہروں میں بسیں ضرور چلتی ہیں۔ تعداد میں کمی اور رش کے باعث چند میل کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اوپر سے کرائے بھی بلا بریک۔ قوموں کی زندگی میں دو چار دس یا بیس سال کوئی معنی نہیں رکھتے۔ کوئی پلاننگ اور منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رکھنے سے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ آج ٹریفک کا بہاﺅ برقرار رکھنے کے لئے سڑکوں میں توسیع کی بات ہوتی ہے۔ ٹریفک کم کرنے کی نہیں۔ بڑے شہروں میں سرکولر ٹرینیں چلائی جا سکتی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ مینج کی جا سکتی ہے۔ کراچی میں سرکولر ریلوے ہے اس میں توسیع اور بہتری کی جا سکتی ہے۔ لاہور میں بھی ایسا ہی منصوبہ کبھی تھا اس کو بھی شاید وزیر ریلوے بلور گاندھی چاٹ گئے۔ حکمرانوں کی ذرا سی توجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ میں فوری بہتری لائی جا سکتی ہے۔ خلق خدا کی خدمت پر یقین رکھنے والوں کو آگے لایا جائے۔ تجوریاں بھرنے والوں سے مسافروں کی جان چھڑائی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ آرام دہ، بروقت اور ہر وقت دستیاب، کرائے کم ہوں تو کاروں موٹر سائیکلوں کے بجائے لوگ اس پر سفر کریں۔ اس سے شہروں میں ٹریفک کا بوجھ ہلکا آلودگی اور گاڑیوں کی لائنوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ لاہور کو استنبول کی طرح صاف ستھرا دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ ٹریفک کے مسائل حل کر دیں تو لاہور کیا تمام شہروں کو صاف ستھرا دیکھنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

Friday, January 21, 2011

ماشاء اللہ

جمعۃالمبارک ، 21 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
بات دنیا جہاں کی ہو یا معاشرے طبقے یا کسی حلقے کی۔ ان میں باصفا اہلِ دل اور باوفا لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں۔ تاہم عمومی طور پر ہمارا معاشرہ ہر پھٹکار کا شکار ہے۔ جس میں ایک خواہ مخواہ کا روگ حسد ہے جو ہم دل جلانے کے لئے پال لیتے ہیں۔ سائیکل والے کو موٹر سائیکل والا دُکھتا ہے موٹر سائیکل والے کا گاڑی والے کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ چھوٹی گاڑی والے کو بڑی گاڑی والا زہر دکھائی دیتا ہے۔ ریڑھی، رکشے والا سب کو دیکھ کر بغض کا ہمالہ بن جاتا ہے۔ دوسرے کا اچھا مکان، کاروبار، دکان فصل مال مویشی چبھتے ہیں۔ اونچے مقام پر بیٹھا بھی نیچے والوں کو نگاہِ ناز اور فخر وانبساط سے دیکھتا ہے۔جس سے حسد کیا جائے اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا صرف اپنے اندر کی آگ ہے جو تن من کو اپنی لپیٹ میں لئے رکھتی ہے۔ حسد کے بجائے رشک کیا جائے اور ماشاء اللہ کہہ دیا جائے تو نیکی برباد ہونے سے بچ جاتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ماشاء اللہ کہنے سے ہم پر نظر عنایت کر دے۔ یہ تہمید باندھنے کی ضرورت امیر کویت کی طرف سے اپنے ملک کی گولڈن جوبلی کے موقع پر شہریوں پر نوازشات کی برسات پر پیش آئی۔ امیر صباح الحمد الجابر الصباح نے ہر شہری کو ایک ہزار دینار یعنی 3 لاکھ روپے اور سال بھر کا راشن دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ انعامات یکم فروری کو پیدا ہونے والے بچے تک کو بھی ملیں گے‘ ماشاء اللہ۔
امیر کویت نے یہ اعلان پچاسویں سالگرہ پر کیا ہم نے پانچ ماہ قبل قائداعظم کے پاکستان کی 63ویں سالگرہ جس طرح کرب، دکھ، بارود کی بو، سیلاب زدگان کی بے بسی، ہر پاکستانی کی بے کسی، مہنگائی بدامنی، بیروزگاری، بدنظمی، بدعملی اور حکومت کی بے حسی میں منائی اس کا ہم سب کو علم ہے۔ کویت کی آبادی دس سوا دس لاکھ ہے۔ بلاشبہ اس کے پاس بے بہا وسائل ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کو آسانی سے نواز سکتے ہیں۔ ہمارے حکمران کچھ نہیں کر سکتے۔ آبادی 17 کروڑ اوپر سے قرضوں کا انبار۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے بنکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ آج پاکستان 107 کھرب روپے کا مقروض ہے۔ یعنی ہر پیدا ہونے والے بچے کے سر 60 ہزار روپے کا قرض ہوتا ہے۔ ہم تو قرض بھی قرض لے کر اتار رہے ہیں تو سالگرہ پر عوام کو تیل کی قیمت میں دس پندرہ روپے کمی کا تحفہ بھی نہیں دے سکتے۔ البتہ نیٹو کو ہمارے شہریوں پر یلغار کرنے کے لئے فی لیٹر 32 روپے گفٹ ضرور کر رہے ہیں۔
ایماندار، دیانتدار، اہل اور قوم کا درد رکھنے والے حکمران ہوں تو ہر سالگرہ پر تین لاکھ کیا پانچ لاکھ روپے ہر شہری پر نچھاور کئے جاسکتے ہیں۔ ہمارے وسائل کویت کے مقابلے میں ہزار گنا سے بھی زائد ہیں۔ سونا اگلتی زمینیں آپ کے لئے وافر مقدار میں خوراک پیدا کر رہی ہیں۔ زمین کے اندر تیل گیس اور کوئلے کے نہ ختم ہونے والے ذخائر ہیں۔ پہاڑ سونا چاندی اور یورینیم جیسی دھاتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ دنیا کا قیمتی پتھر بھی اس دھرتی کے پیٹ میں ہے۔سمندر کی گود میں لعل و جواہر موجود ہیں ہم پھر بھی کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی رحلت کے بعد ہمیں عموماً تنگ دل اور سنگ دل نام نہاد لیڈرشپ ملی۔ اگر اخلاص نہ ہو، اپنا پیٹ آگے دوسروں کا احساس نہ ہو تو سارے پہاڑ سونے کے بھی بن جائیں تو بھی لوٹ مار کرتے جی نہیں بھر سکتا۔ آج کی اشرافیہ کے دینے والے ہاتھ نہیں لینے والے ہیں۔ ان جیسا ایک نہر میں گر گیا۔ ایک ہمدرد نے نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ہاتھ دو۔ ڈوبنے والے نے ہاتھ مزید دور کر لیا۔ مددگار نے کہا ہاتھ لو تو فوراً ہاتھ آگے بڑھا کر پکڑا دیا۔ ہمارے حکمران دوسروں کو وہ چیز دیتے ہیں جو ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ وزیراعظم نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا سیاسی رواداری کے تحت اپنی داڑھی اپوزیشن لیڈر کے ہاتھ میں دیدی۔ ملاحظہ فرمائیے جو چیز صدر اور وزیراعظم کے پاس ہے ہی نہیں وہ اپوزیشن لیڈر کے ہاتھ میں دیدی۔
ماہرین کہتے ہیں پاکستان میں سالانہ ایک ہزار ارب کی لوٹ مار ہوتی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اربوں کی کرپشن ثبوتوں کے ساتھ سامنے نہ آتی ہو۔ اگر کرپشن کا بازار بند ہو جائے اورایمانداری سے وسائل بروئے کار لائے جائیں تو یقین جانئے ہر پاکستانی خوشحال اور نہال ہو جائے۔ حکومت پانچ لاکھ دینے پر اصرار کرے اور کوئی لینے والا نہ ہو، ماشاء اللہ۔

Thursday, January 20, 2011

چکر

  جمعرات ، 20 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
مخدوم سائیں 2008ء کی انتخابی مہم کے آغاز میں بہاولپوری و لاہوری مہمانوں کے ساتھ ڈرائنگ میں بیٹھے دبئی کی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ سائیں کہیں جانے کیلئے تیار بیٹھے تھے کہ یہ دوست جا پہنچے مہمانوں نے کوٹھی کے درمیان میں زیر تعمیر دیوار کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ الیکشن کی تیاری کیلئے آدھا حصہ بیچنا ہے۔ کوٹھی کا آدھا حصہ بکا‘ نہیں بکا‘ کتنے کا بکا؟ اس بارے میں تاریخ خاموش ہے تاہم دیوار موجود نہیں اور پوری کوٹھی پرانے مالکوں کی ملکیت ہی ہے۔ راوی کا کہنا ہے کہ گپ شپ کے دوران پیر سائیں نے ایک بارعب عمر رسیدہ شخص کو کھڑکی کے شیشے سے ڈرائنگ روم کی طرف بڑھتے دیکھا تو عجلت میں یہ کہتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے ’’انہیں بٹھائیے گا میں ابھی آیا۔‘‘ چند منٹ بعد واپس آئے تو سلیپنگ سوٹ پہنا ہوا تھا۔ چہرے کے ایک طرف شیونگ کریم کی جھاگ لگی اور ہاتھ میں شیونگ برش تھا۔ نئے مہمان کا ’’پرتپاک استقبال‘‘ کرتے ہوئے کہا ’’میں ابھی آپ کی طرف نکلنے والا تھا اچھا ہوا آپ چلے آئے۔‘‘
مولانا فضل الرحمن اور الطاف حسین نے حکومت کا ساتھ چھوڑا تو گیلانی صاحب باقاعدہ پریشر میں دکھائی دئیے۔ اکثریت اقلیت میں بدلی تو اپنی سیٹ برقرار رکھنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا قدرتی امر تھا۔ پھر تمام قابل ذکرق پارٹیوں نے تیل کی قیمتیں فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا تو حکومت اس پر بادل نخواستہ تیار ہو گئی۔ پھر ایم کیو ایم ساتھ ملی تو اکثریت بھی بحال اور وقتی طور پر حکومت کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا مل گیا۔ تیل کی قیمتیں کم ہوئیں تو نواز شریف نے حوصلہ پکڑا اور دس نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا۔ ہاں یا ناں کیلئے وزیراعظم گیلانی کو 6 دن کی مہلت اور ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے 45 دن کی ڈیڈ لائن دی گئی۔ وزیراعظم ہاں یا ناں کے مخمصے میں تھے کہ ایک دن نواز شریف نے فرما دیا کہ ڈیڈ لائن کا لفظ ان کی ڈکشنری میں نہیں۔ گیلانی صاحب کو اس بیان سے حوصلہ ملا۔ تو انہوں نے چوتھے دن ہاں کہہ دی۔ کچھ سچائیاں وقت گزرنے کے ساتھ خود بخود عیاں ہو جاتی ہیں۔ دروغ برگردن مجاہد لاہو پرانے وقتوں کی بات ہے بی بی سی کے نمائندہ نے نواز شریف سے ان کے گھر میں لائبریری سے متعلق استفسار کیا تو میاں صاحب نے فرمایا تھا لائبریری نہیں ہے۔ اب میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ ان کی ڈکشنری میں ڈیڈ لائن کا لفظ نہیں ہے تو ثابت ہو گیا کہ ان کے ہاں لائبریری موجود ہے جس میں کچھ اور ہو نہ ہو وہ ڈکشنری ضرور موجود ہے جس میں ڈیڈ لائن کا لفظ نہیں۔
آج ملک میں دو طبقے پائے جاتے ہیں۔ مہنگائی بے روزگاری اور بدامنی کی آگ میں جھلسنے والا دوسرا طبقہ جسے اشرافیہ کہا جا سکتا ہے۔ اکثر کا تعلق حکمران طبقے سے ہے۔ ان کے رہن سہن‘ کردار عمل حتیٰ کہ باڈی لینگوئج سے بھی کوئی پریشانی اور پشیمانی نہیں ٹپکتی۔ مطمئن‘ پرسکون گلنار چہرے‘ مسکراہٹیں قہقہے‘ بھرپور زندگی انجوائے کر رہے ہیں۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی حسرت لئے حکمرانوں کو دباؤ پر مجبوراً تیل کی قیمتیں کم کرنا پڑیں تو تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ بدستور اپنی جگہ پر موجود ہے۔ بلکہ گھی‘ ایل پی جی‘ سبزیوں خصوصی طور پر پیاز اور ریلوے کرایوں میں تو مزید اضافہ ہو گیا۔ ٹیکسوں میں مزید اضافے کا حکومتی ایوانوں میں واویلا جاری ہے۔ وزیراعظم نے نواز شریف کے ایجنڈے کا ’’پرتپاک استقبال‘‘ کیا تھا لیکن گذشتہ روز حکومتی ٹیم نے نواز شریف کے ایجنڈے کے حوالے سے کہہ دیا کہ اس پر عملدرآمد کیلئے خصوصی ٹائم فریم نہیں دے سکتے۔ تو کیا وزیراعظم نے جو ہاں کی تھی وہ سب چکر تھا اور نواز شریف کے 45 دن؟
آج پاکستان میں پھیلی ہر بیماری اور مرض کی وجہ کرپشن ہے۔ اگر حکومت نواز شریف کو ان کے 10 نکاتی ایجنڈے پر چکر دے رہی ہے تو نواز شریف صرف کرپشن کے خاتمے کا ایک نکاتی ایجنڈا لے کر آگے بڑھیں پوری قوم ان کے ہمقدم ہو گی۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ قوم کہتی تھی قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں 12 اکتوبر 99ء کو پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نظر نہ آیا۔ میاں صاحب کو غلط فہمی دور کر لینی چاہئے کہ وہ آواز قوم کی نہیں تھی۔ ان کی کچن کیبنٹ اور فصلی بٹیروں کی تھی۔ جو مشکل وقت میں ان کو تنہا چھوڑ کر کسی ہری بھری شاخ پر جا بیٹھے تھے۔ کرپشن آج بہت بڑا ناسور بن چکا ہے۔ قوم اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔ آپ قدم بڑھائیں قوم آپ کے ساتھ ہو گی۔ وہ ڈکشنری خرید لیں جس میں ڈیڈ لائن کا لفظ ہے۔ 45 دن کی ڈیڈ لائن پر ڈٹ جائیں جس میں اب صرف 35 دن باقی بچے ہیں۔ سید بادشاہ کے چکر میں نہ آئیں۔ آپ خود بادشاہ ہیں۔ ماشاء اللہ

پھیلتی آبادیاں


19-1-11

فضل حسین اعوان
شہر پھیلتے جا رہے ہیں۔ بغیر کسی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے، کھیت کھلیان ہائوسنگ سکیموں میں ڈھل رہے ہیں۔ چند ایکڑ سے لیکر ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہائوسنگ سکیمیں موجود ہیں۔ اس شعبہ میں جہاں ایماندار اور دیانتدار لوگ ہیں وہیں فراڈیوں اور جعلسازوں کی بھی کمی نہیں۔ ہائوسنگ سکیمیں بنتی ہیں۔ پرکشش اشتہار بازی شروع ہوتی ہے۔ اکثر لوگ زندگی بھر کی جمع پونجی پلاٹ کی خریداری پر لگا دیتے ہیں۔ تعمیر شروع ہوتی ہے تو دو تین مزید اسی پلاٹ کے مالک نمودار ہوجاتے ہیں۔ کوئی تھانے جاتا ہے، کوئی کچہری اور کوئی سٹے لے آتا ہے۔ تعمیر کیلئے اکٹھی کی گئی رقم مقدمہ بازی کی نذر اور خریدار ٹینشن، پریشانی اور رنج و غم سے کئی بیماریوں کی زد میں آجاتا ہے۔ اس دوران پلاٹ بیچنے والے رفوچکر ہوچکے ہوتے ہیں۔ چھوٹی سکیموں کے مکین فراڈ سے بچ جاتے ہیں تو زندگی بھر کی رسوائی خرید لیتے ہیں۔ ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیاں۔ سکول، مدرسہ نہ مسجد، سیوریج، گیس، بجلی نہ پانی، سب اپنی مدد آپ کے تحت کرنے کی ذمہ داری، سڑک کی تعمیر کیلئے الیکشن کا انتظار۔
بڑے بڑے پلازے بنتے ہیں۔ سینکڑوں ہالوں، دفاتر اور دکانوں پر مشتمل ایک ایک کی قیمت کروڑوں میں۔ قانون کے مطابق اس میں پارکنگ آگ بجھانے کے آلات اور ایمرجنسی راستوں کا ہونا لازمی ہے۔ اکثر پلازوں میں یہ سہولتیں سرے سے مفقود، پلازہ بنانے والے اور متعلقہ ادارے قانون جانتے اور ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ تعمیر سے تکمیل اور پھر فروخت تک یہ ادارے خاموش رہتے ہیں۔ دفاتر سجنے اور کاروبار چلنے کے بعد اہلکاروں کے کالے تیل میں ڈبکیاں لگاتے ضمیر ابل پڑتے ہیں۔ بہی کھاتے لیکر آدھمکتے ہیں۔ اگلی داستانِ الم دہرانے کی ضرورت نہیں۔ پھر ان میں سے ایک منحوس شکل کا ہر ماہ آنا اور جیبیں بھر کے جانا لگا رہتا ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ اداروں میں بیدردی سے لوٹ مار کے بعد بھی اگر معیشت میں کچھ دم خم ہے تو یہ زراعت کی بدولت ہے۔ شہروں کے قرب و جوار میں سونا اگلتی ہزاروں ایکڑ زمینوں پر آج فصلوں کے بجائے ہائوسنگ سکیمیں اُگ چکی ہیں۔ کہیں ضرورت کے مطابق اور کہیں بلاضرورت۔ لوگوں کا شہروں میں آبسنے کا رجحان ضرور ہے لیکن قصبات اور دیہات سکڑ نہیں رہے، ان کا حجم اور ہئیت بھی تغیر پذیر ہے۔ شہروں کی دیکھا دیکھی قصبوں اور دیہات میں بھی ہائوسنگ سکیموں اور کالونیوں کی وبا جڑ پکڑ رہی ہے۔ کچھ دولت مندوں کو دیہی لائف سٹائل میں کشش نظر آتی ہے تو وہ کسی گائوں میں بسیرا کرنے کے بجائے ہزاروں سینکڑوں ایکڑ زمین خرید کر اپنا الگ سے گائوں کھڑا کرلیتے ہیں۔
کیا ہم ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی زراعت کا حال بھی صنعتوں، کارخانوں اور فیکٹریوں جیسا کرنا چاہتے ہیں؟ جو بجلی اور گیس کی قلت کے باعث اپنا وجود کھو رہی ہیں۔ لاکھوں مزدوروں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں۔بڑھتی آبادی کے ساتھ اسکے روزگار اور رہائش کا انتظام ہونا چاہئے۔ یہ سرکار کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ ہائوسنگ سکیمیں کسی قانون اور تمیز کے دائرے میں رہ کر بننی چاہئیں جہاں زندگی کی مطلوبہ سہولتیں فراہم کرنا بلڈرز کی ذمہ داری میں شامل ہو۔ اس پر صرف حکومت ہی عملدرآمد کراسکتی ہے۔ ایسی ہائوسنگ سوسائٹیز بھی موجود ہیں جہاں 20 سال بعد بھی ٹکے کا کام نہیں ہوا۔ کچھ میں جوں کی رفتار سے کام ہورہے ہیں، یہ بحق سرکار ضبط ہوجانی چاہئیں۔ حکومت کوشش کرے کہ زرعی زمین پر ہائوسنگ سکیمیں کالونیاں اور سوسائٹیز تعمیر نہ ہوں، اگر ایسا ناگزیر ہو تو انکے اندر ایک مخصوص حصہ سبزیوں کی کاشت کیلئے مختص کیا جائے جو نہ صرف مناسب قیمت پر سوسائٹی کے مکینوں بلکہ زائد شہرکے لوگوں کیلئے دستیاب ہو۔ زراعت پر بڑھتے بوجھ میں کمی کے طریقوں میں سے ایک یہ بھی ہے۔

خانہ خالی را دیومی گیرد

18-1-11
فضل حسین اعوان 
وزیراعظم کی تقریر و تَکَلُّم پر بھی غور فرمایا آپ نے؟ نہیں فرمایا تو اب فرما لیجئے۔ پھر موازنہ کیجئے ان کے آج اور شروع کے خطابات میں، جب وہ وزارتِ عظمٰی کے منصب پر سرفراز ہوئے تھے۔ آپ کو واضح فرق نظر آئے گا۔ پرانی تقریر ٹی وی پر آواز بند کر کے دیکھیں تو لگتا ہے ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ پڑھ رہے ہیں۔ آج کے یوسف رضا گیلانی کا تقریر کرتے ہوئے انگ انگ بولتا ہے۔ ایک ایک لفظ پر تین بار بھی اٹکتے ہیں تو یہ بھی ان کی دانستہ فنکاری کا غماز ہے۔ بات کرتے ہوئے گردن گھمانا، ہاتھ لہرانا، سر جھٹکانا، سب حاضرین کو متاثر کرنے کا انداز ہے… گیلانی صاحب کے کلاس فیلو اور دوست ہونے کے ایک دعویدار کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وزیراعظم نے ان سے ’’فنِ خطابت‘‘ نامی کتاب منگوائی تھی۔ اس کے مطالعہ کے بعد ان کا لب و لہجہ نکھر گیا۔ ان کو بات کرنے کا گُر آ گیا، تقریر کا فن آ گیا۔
آج واقعی گیلانی صاحب کا تقریر کرتے ہوئے جوبن اور بانکپن قابل دید ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ شنید بھی ہے۔ ان کی زبان گل بہار ہو سکتی ہے تو شعلہ بار بھی۔ دوست نے خطابت کے لئے نسخہ کیمیا تو ان کے حوالے کر دیا۔ تقریر میں کہنا کیا ہے۔ اس کی گیلانی صاحب نے پوچھنے کی زحمت کی نہ کسی سیانے نے بتانے کی۔ وہ اب تک اس مخمصے سے نہیں نکل سکے کہ کب گُل کھلانے ہیں کہاں انگارے برسانے ہیں۔ تعزیتی، ماتمی شکل کہاں بنانی ہے اور چہرے پر تازگی و شادمانی کب لانی ہے۔ شاید خود کو بڑا سیاستدان ثابت کرنے کے لئے کہہ دیا تھا جسٹس افتخار کو ججوں کا امام سمجھتا ہوں۔ اس وقت جج بحال نہیں ہوئے تھے۔ اگلے دن شاید کسی نے گھور کر اس سے بڑا سیاستدان بننے کا کلیہ بتا دیا تو گویا ہوئے ’’میں نے ان کو ججوں کا امام نہیں کہا‘‘۔ جھانسی کی رانی کا نام سنا تھا۔ جھانسوں راجہ بھی دیکھ لیا۔ جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی ڈیڈ لائن پہ ڈیڈ لائن دیتا تھا۔ گیلانی صاحب نے بلایا، ڈانٹا اور سمجھایا ’’احمق سیاست میں کبھی ڈیڈ لائن نہیں دیتے‘‘ ڈیڈ لائن لینے کے بارے کچھ نہیں بتایا تھا۔ نوازشریف نے ہاں یا ناں کے لئے تین جمع تین دن کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ گیلانی صاحب نے چوتھے دن ہاں کر دی۔ تاہم 45 دن کا جھانسہ دیا ہوا ہے۔ سو بار کہا عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں ان پر عمل کریں گے۔ شاید فیصلے منگوا کر ان کو چوم کر محترمہ کی تصویر کے فریم کے برابر لٹکا دیتے ہوں۔ اس سے زیادہ احترام کیا ہو سکتا ہے جب اتنا احترام ہے تو عمل کی کیا ضرورت۔ ویسے بھی ان کی نظر میں پارلیمنٹ سُپر ہے۔ جب پارلیمنٹ سُپر ہے تو پارلیمنٹیرینز پر عدالتی فیصلوں کا اطلاق کیوں ہو گا؟
سلمان صدیق چیئرمین ایف بی آر ایک تقریب میں تلملانے سے زیادہ بلبلا اٹھے ’’حکومت اخراجات پورے نہیں کر رہی، معیشت کی حالت نازک ہے، حالات ٹھیک نہ کئے گئے تو تباہی آئے گی، پاکستانی معیشت بند گلی میں ہے حکومت غیر اعلانیہ ایمرجنسی سے جنگ لڑ رہی ہے‘‘۔ سلمان صدیق نے معیشت کی بربادی کا واویلا کراچی میں کیا تو وزیراعظم گیلانی نے اسی روز لاہور میں ایک تقریر کے دوران فرمایا ’’معیشت مستحکم ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنائیں گے۔ تین سال میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں‘‘۔ کونسی کامیابیاں حاصل کیں اور عدلیہ کی آزادی کو کب یقینی بنائیں گے؟ سلمان صدیق نے ملکی معیشت کی بدحالی اور زبوں حالی کی بات کی۔ وزیراعظم کس کی معیشت کے استحکام کا نعرہ مستانہ بلند فرما رہے؟ اپنی، اپنے باس، وزیروں مشیروں اور عہدوں کے خریداروں کی؟ شہباز شریف سے بارہا دوسرے صوبوں کے برابر پنجاب کو بھی گیس کی فراہمی کے وعدے اور اعلانات کئے‘ ان پر عمل کبھی ہوا؟ ایسی باتیں کریں گے تو عام آدمی کو ان کے اوپر کے خانے کے خالی ہونے کا شبہ ہو سکتا ہے۔ خانہ خالی ہو تو فارسی محاورے کے مطابق خانہ خالی را دیومی گیرد (خالی گھر کو جن بھوت اپنا بسیرا بنا لیتے ہیں)۔

Monday, January 17, 2011

تیونس کے صدر کا فرار

 پیر ، 17 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان 
ظلم و ستم ڈھانے اور عوام کا صبر آزمانے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ لوگ جبر کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں تو خُدا کی مدد اور نصرت بھی ساتھ ہو جاتی ہے۔ پھر آمرانہ پالیسیوں کے پروردہ اور خود کو عقل کل سمجھنے والے حکمران ٹمٹماتے چراغ کی طرح ہوا کے معمولی جھونکے کی تاب بھی نہیں لا سکتے۔ ان کو اہلیت کے بجائے خوشامد اور خدمات کے برتے پر چنے گئے مشیر تو کیا بچائیں گے۔ امریکہ جیسے مربی، موالی، سرپرست اور پشت پناہ بھی سہارا نہیں دے سکتے۔ مارکوس، شہنشاہِ ایران، مشرف اور تازہ ترین تیونس کے صدر کی روشن مثالیں، سمجھنے والوں کے لئے عبرت کا سامان لئے ہوئے ہیں۔ 
تیونس نے 1956ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی۔ 1957ء میں حبیب بورقیبہ پہلے صدر چنے گئے۔ 1987ء میں زین العابدین نے پرامن بغاوت کے ذریعے بورقیبہ کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے قانون کو موم کی ناک بنا لیا۔ جس طرح چاہا اس کو بدلا، توڑا اور مروڑا۔ ایک کروڑ کی آبادی والا ملک کنگلا اور کنگال نہیں۔ 98 فیصد مسلمانوں پر مشتمل آبادی کے ملک کے ہر شہری کی سالانہ آمدنی 70 ہزار ڈالر ہے۔ اس کے مقابلے میں فی کس پاکستانی کی آمدنی صرف 1051 ڈالر ہے۔ تیونس کی سیاست میں عوامی اثر و نفوذ کم امریکی عمل دخل زیادہ ہے۔ 23 سال سے زین العابدین کی آر سی ڈی کی ملک میں اجارہ داری چلی آ رہی ہے۔ اپوزیشن کو تختہ مشق بنانا صدر زین العابدین کا وطیرہ تھا۔ میڈیا اندرونی ہو یا بیرونی حکومت کی دستبرد سے محفوظ نہ تھا۔ زین العابدین نے امریکہ کی پشت پناہی میں ماحول اس قدر ٹائٹ کر دیا تھا کہ لاوا پکتا رہا اسے کبھی نہ کبھی تو پھٹنا تھا۔ بالآخر زین کا بھی یوم حساب آ گیا۔ جس طرح ہر آمر کا آتا ہے۔ اس کے مشیر بھی سب اچھا کی رپورٹیں دیتے رہے۔ ملک میں مہنگائی کا عفریت عوام کو ڈس رہا تھا۔ مصاحبین اسے بھی صدر صاحب کی طرف سے عوام کے لئے تحفہ ثابت کر رہے تھے۔ سرکاری اداروں میں خواتین کے حجاب پر پابندی بھی نادر شاہی فرمان کے تحت لگائی گئی۔ صدر زین کے زوال کا آغاز دسمبر میں اس وقت شروع ہوا جب دارالحکومت تیونس سٹی میں پولیس نے 26 سالہ گریجوایٹ محمد بائو زیز کو لائسنس کے بغیر فروٹ فروخت کرنے سے روک دیا۔ نوجوان نے اپنے خاندان کی کفالت کے لئے جائز ذریعے سے کاروبار کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ ناکامی پر دلبرداشتہ ہو کر 17 دسمبر کو سرِبازار خود کو آگ لگا کر دنیا کے دکھوں سے جان چھُڑا لی۔ اس کے بعد مشتعل لوگ احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلے تو صدر نے پولیس کو سیدھا فائر کرنے کے احکامات جاری کر دئیے۔ تین ساڑھے تین ہفتوں میں پولیس نے 60 انسان موت کے گھاٹ اتار دئیے۔ اس پر صدر کی انسانیت جاگی نہ ان کے ساتھیوں کی۔ امریکہ نے اس غضب پر افسوس کیا نہ مذمت۔ حکومت کے لئے عوامی جذبات کے سامنے بند باندھنا ناممکن ہوا تو صدر صاحب نے حکومت توڑ دی۔ اس پر عوام مزید بھڑکے تو 14 جنوری کو صدر زین العابدین ملک سے فرار ہو کر سعودی عرب چلے گئے۔ جب صدر زین فرار ہوئے ان کا جہاز ابھی سعودی عرب میں لینڈ بھی نہیں ہوا تھا کہ امریکہ نے پینترا بدلا، زین اس کے کام کا نہیں رہا تھا تو وائٹ ہائوس سے تیونس میں جاری سویلین پر تشدد کی مذمت کا بیان پڑھ کر سنا دیا گیا۔ 
تیونس کی موجودہ صورت حال اور صدر کا فرار ہمارے حکمرانوں کے لئے ایک بڑا سبق اور لمحہ فکریہ ہے۔ امریکہ کی سرپرستی کو دائمی چھتری سمجھ کر عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایت پر عوام کا عرصہ حیات تنگ کئے جانے کی بھی ایک حد ہے۔ شاید عوام کے صبر اور برداشت کی بھی انتہا ہو چکی ہے۔ اگر حکمرانوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو ان کا حال بھی تیونس کے صدر جیسا ہو سکتا ہے۔

Sunday, January 16, 2011

احمق کہیں کے

 اتوار ، 16 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان 
جنگ عظیم دوم میں ہٹلر نے یہودیوں پر بڑے ظلم ڈھائے، انکو جہاں پایا وہیں مار گرایا۔ ہٹلر کے مدمقابل اتحادیوں نے بھی کسر نہیں چھوڑی۔ کیا وہ ہتھے چڑھے جرمنوں اور جاپانیوں کو معاف کردیتے تھے؟ ستم اِدھر سے روا رکھا گیا تو ظلم اُدھر سے بھی ڈھایا گیا۔ ہالوکاسٹ پر مغرب میں آج بھی بات کرنے کی اجازت نہیں۔ تنقید کرنے پر آزادی اظہار کے علمبرداروں کے ہاں تین سال قید کی سزا مقرر ہے۔ کئی اس سزا کی بھینٹ چڑھ بھی چکے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے اتحادیوں کا دعویٰ ہے کہ ہالوکاسٹ میں 60 لاکھ یہودی ہلاک کئے گئے۔ صفحہ ہستی سے مٹنے والے یہودیوں کی کوئی لسٹ کبھی سامنے نہیں آئی۔ مسلمان تو درکنار، خود مغربی مورخ بھی ہالوکاسٹ کی مبینہ ہلاکتوں کو ماننے پر متفق نہیں لیکن مسلمانوں نے بطور موقف ہالوکاسٹ کو کبھی نہیں جھٹلایا۔ حالانکہ امہ کا ایمان ہے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے اسکے باوجود محض اس لئے ہالوکاسٹ کی حقیقت کا پردہ چاک نہیں کرتے کہ اہل کتاب کی دلآزاری نہ ہو۔ دوسری حالت یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مذہبی قیادت مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے۔ یہ لوگ کچھ تو تعصب اور خبثِ باطن کے باعث مسلمانوں کیخلاف آگ اگلتے ہیں، کچھ علمیت کے زعم میں اپنی جاہلیت بے نقاب کر بیٹھتے ہیں۔ یہ حاطب اللیل ہیں جو اچھے برے کی پہچان کرنے سے قاصر ہیں۔
بظاہر پوپ بینڈکٹ اور امریکی پادری ٹیری جونز پڑھے لکھے اور صاحب علم و فضل نظر آتے ہیں۔ انکی حرکتوں، انکے بیانات اور قول و فعل پر غور کیا جائے تو دونوں جاہل مطلق بلکہ ’’اَحُمَقُ اللَّیلُِ وَالنَّہاَرِ‘‘ (چوبیس گھنٹے احمق رہنے والا شخص) ہیں۔ پوپ صاحب جس مقام پر فائز ہیں انکو تو بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ وہ دین اسلام سمیت ہر مذہب کی تعلیمات سے واقف ہیں۔ انکو یہ بھی علم ہے کہ انکی زبان سے نکلے کونسے الفاظ مسلمانوں کے دل میں خنجر بن کر اتر سکتے ہیں۔ اسکے باوجود وہ زہر میں بجھے الفاظ استعمال کرنے سے باز نہیں آتے۔ 12 ستمبر 2006ء کو پوپ صاحب نے ایک بازنطینی بادشاہ کا قول دہرایا جس سے نبی کریمؐ کی شان میں صریح گستاخی کی گئی تھی۔ اس قول کے آڑ میں پوپ صاحب کے اندر مسلمانوں کیخلاف بھڑکی آگ بھی انکی زبان سے شعلہ فشاں ہوتی رہی۔ چار دن بعد انہوں نے معذرت تو ضرور کی لیکن باطن جس طرح گندا تھا اسی طرح پراگندہ رہا۔ 10 جنوری 2011ء کو پاکستان سے ناموس رسالتؐ قانون ختم اور اس قانون کی زد پر آئی آسیہ کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔ ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ قانون ناانصافی اور تشدد کا جواز فراہم کرتا ہے۔ قانون ناموس رسالتؐ پر تنقید کے بجائے وہ اپنے پیروکاروں کو حضورؐ کی شان میں گستاخی نہ کرنے کا درس کیوں نہیں دیتے؟ کیا پوپ صاحب پاگل اور احمق یا انتہائی درجے کے متعصب ہیں؟
امریکی پادری ٹیری جونز ایک بار پھر بائولا ہوگیا۔ اب کے اس نے 20 مارچ کو قرآن پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا ذمہ دار قرآن کو قرار دیتا ہے۔ اس ملعون نے قرآن کو نعوذ باللہ سزا دینے کے چار طریقے جلانا، ڈبونا، پھاڑنا یا فائرنگ سکواڈ کے سپرد کرنا بتائے ہیں۔ دماغ کے نر دھن، نِرجل، نِرپھل نادار اور مفلس امریکی ریاست نبراسکا کے سنیٹر ارنی چیمبر نے 26 ستمبر 2007ء کو خدا پر مقدمہ دائر کردیا تھا۔ ڈگلس کائونٹی میں مقدمہ دائر کرتے وقت سنیٹر نے الزام لگاتے ہوئے یہ تاویل پیش کی کہ خدا نے اسکے اور اسکے حلقہ انتخاب میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے ذریعے دہشت پھیلا دی اور اس زمین پر رہنے والے اربوں انسانوں کو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں، تباہ کاریوں اور دہشت کے ذریعے دہشت زدہ کردیا۔ خدا خوفناک سیلاب لاتا ہے، تباہ کن سمندری طوفان اور ٹورناڈو کے ذریعے تمام انسانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ اس نے خدا کے خلاف مستقل حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا کی تھی۔
سنیٹر ارنی کے دعوے کو وہ جانے اور اسکا خدا۔ ہم تو پوپ کی بدگوئی اور ٹیری جونز کی دریدہ دہنی پر سراپا اشتعال ہیں۔ ممبئی دھماکوں میں دو تین امریکی زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں میں حکومت پاکستان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا اسکے باوجود امریکی عدالت نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو طلب کرلیا۔ ٹیری جونز نے پاکستانی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کی۔ حکومت پاکستان اسکی حوالگی کا مطالبہ کرے، ٹیری کیخلاف مہم چلانے والے اسکے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295/C کے تحت مقدمہ درج کرائیں۔ اسکے ساتھ ساتھ امریکہ میں موجود ٹیری جونز تک رسائی رکھنے والے مسلمان اسے ایک بار قرآن کا گہرائی سے مطالعہ کرنے پر قائل و مائل کریں شاید اس پر اسلام کی حقانیت واضح ہوجائے۔


 اتوار ، 16 جنوری ، 2011
احمق کہیں کے!
فضل حسین اعوان 
جنگ عظیم دوم میں ہٹلر نے یہودیوں پر بڑے ظلم ڈھائے، انکو جہاں پایا وہیں مار گرایا۔ ہٹلر کے مدمقابل اتحادیوں نے بھی کسر نہیں چھوڑی۔ کیا وہ ہتھے چڑھے جرمنوں اور جاپانیوں کو معاف کردیتے تھے؟ ستم اِدھر سے روا رکھا گیا تو ظلم اُدھر سے بھی ڈھایا گیا۔ ہالوکاسٹ پر مغرب میں آج بھی بات کرنے کی اجازت نہیں۔ تنقید کرنے پر آزادی اظہار کے علمبرداروں کے ہاں تین سال قید کی سزا مقرر ہے۔ کئی اس سزا کی بھینٹ چڑھ بھی چکے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے اتحادیوں کا دعویٰ ہے کہ ہالوکاسٹ میں 60 لاکھ یہودی ہلاک کئے گئے۔ صفحہ ہستی سے مٹنے والے یہودیوں کی کوئی لسٹ کبھی سامنے نہیں آئی۔ مسلمان تو درکنار، خود مغربی مورخ بھی ہالوکاسٹ کی مبینہ ہلاکتوں کو ماننے پر متفق نہیں لیکن مسلمانوں نے بطور موقف ہالوکاسٹ کو کبھی نہیں جھٹلایا۔ حالانکہ امہ کا ایمان ہے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے اسکے باوجود محض اس لئے ہالوکاسٹ کی حقیقت کا پردہ چاک نہیں کرتے کہ اہل کتاب کی دلآزاری نہ ہو۔ دوسری حالت یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مذہبی قیادت مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے۔ یہ لوگ کچھ تو تعصب اور خبثِ باطن کے باعث مسلمانوں کیخلاف آگ اگلتے ہیں، کچھ علمیت کے زعم میں اپنی جاہلیت بے نقاب کر بیٹھتے ہیں۔ یہ حاطب اللیل ہیں جو اچھے برے کی پہچان کرنے سے قاصر ہیں۔
بظاہر پوپ بینڈکٹ اور امریکی پادری ٹیری جونز پڑھے لکھے اور صاحب علم و فضل نظر آتے ہیں۔ انکی حرکتوں، انکے بیانات اور قول و فعل پر غور کیا جائے تو دونوں جاہل مطلق بلکہ ’’اَحُمَقُ اللَّیلُِ وَالنَّہاَرِ‘‘ (چوبیس گھنٹے احمق رہنے والا شخص) ہیں۔ پوپ صاحب جس مقام پر فائز ہیں انکو تو بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ وہ دین اسلام سمیت ہر مذہب کی تعلیمات سے واقف ہیں۔ انکو یہ بھی علم ہے کہ انکی زبان سے نکلے کونسے الفاظ مسلمانوں کے دل میں خنجر بن کر اتر سکتے ہیں۔ اسکے باوجود وہ زہر میں بجھے الفاظ استعمال کرنے سے باز نہیں آتے۔ 12 ستمبر 2006ء کو پوپ صاحب نے ایک بازنطینی بادشاہ کا قول دہرایا جس سے نبی کریمؐ کی شان میں صریح گستاخی کی گئی تھی۔ اس قول کے آڑ میں پوپ صاحب کے اندر مسلمانوں کیخلاف بھڑکی آگ بھی انکی زبان سے شعلہ فشاں ہوتی رہی۔ چار دن بعد انہوں نے معذرت تو ضرور کی لیکن باطن جس طرح گندا تھا اسی طرح پراگندہ رہا۔ 10 جنوری 2011ء کو پاکستان سے ناموس رسالتؐ قانون ختم اور اس قانون کی زد پر آئی آسیہ کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔ ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ قانون ناانصافی اور تشدد کا جواز فراہم کرتا ہے۔ قانون ناموس رسالتؐ پر تنقید کے بجائے وہ اپنے پیروکاروں کو حضورؐ کی شان میں گستاخی نہ کرنے کا درس کیوں نہیں دیتے؟ کیا پوپ صاحب پاگل اور احمق یا انتہائی درجے کے متعصب ہیں؟
امریکی پادری ٹیری جونز ایک بار پھر بائولا ہوگیا۔ اب کے اس نے 20 مارچ کو قرآن پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا ذمہ دار قرآن کو قرار دیتا ہے۔ اس ملعون نے قرآن کو نعوذ باللہ سزا دینے کے چار طریقے جلانا، ڈبونا، پھاڑنا یا فائرنگ سکواڈ کے سپرد کرنا بتائے ہیں۔ دماغ کے نر دھن، نِرجل، نِرپھل نادار اور مفلس امریکی ریاست نبراسکا کے سنیٹر ارنی چیمبر نے 26 ستمبر 2007ء کو خدا پر مقدمہ دائر کردیا تھا۔ ڈگلس کائونٹی میں مقدمہ دائر کرتے وقت سنیٹر نے الزام لگاتے ہوئے یہ تاویل پیش کی کہ خدا نے اسکے اور اسکے حلقہ انتخاب میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے ذریعے دہشت پھیلا دی اور اس زمین پر رہنے والے اربوں انسانوں کو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں، تباہ کاریوں اور دہشت کے ذریعے دہشت زدہ کردیا۔ خدا خوفناک سیلاب لاتا ہے، تباہ کن سمندری طوفان اور ٹورناڈو کے ذریعے تمام انسانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ اس نے خدا کے خلاف مستقل حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا کی تھی۔
سنیٹر ارنی کے دعوے کو وہ جانے اور اسکا خدا۔ ہم تو پوپ کی بدگوئی اور ٹیری جونز کی دریدہ دہنی پر سراپا اشتعال ہیں۔ ممبئی دھماکوں میں دو تین امریکی زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں میں حکومت پاکستان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا اسکے باوجود امریکی عدالت نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو طلب کرلیا۔ ٹیری جونز نے پاکستانی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کی۔ حکومت پاکستان اسکی حوالگی کا مطالبہ کرے، ٹیری کیخلاف مہم چلانے والے اسکے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295/C کے تحت مقدمہ درج کرائیں۔ اسکے ساتھ ساتھ امریکہ میں موجود ٹیری جونز تک رسائی رکھنے والے مسلمان اسے ایک بار قرآن کا گہرائی سے مطالعہ کرنے پر قائل و مائل کریں شاید اس پر اسلام کی حقانیت واضح ہوجائے۔


Saturday, January 15, 2011

انگڑائی لیتی مجلس عمل

ہفتہ ، 15 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان 
ایک لمحے ہماری جمہوریت ہوا کے دوش پر رکھے چراغ کی طرح ابھی بجھا کہ ابھی بجھا کی تصویر بنی نظر آتی ہے تو دوسرے لمحے سنگ و آہن کی مضبوط اور ناقابلِ تسخیر دیوار، ہماری سیاست میں خفیہ کاری معجز نما سیاست کی بھی موجد ہے۔ خفیہ ہاتھ سرگرم ہوں تو جس پارٹی یا اتحاد پر چاہیں نوازش کر دیں۔ جسے چاہیں تاجور بنا دیں جس کی چاہیں گرد اور دھول اڑا دیں۔ مشرف نے 2002ءمیں خفیہ ہاتھ متحرک کر کے مرضی کے نتائج حاصل کئے تو جنرل کیانی نے اس ہاتھ کو مروڑ کر 2008ءمیں دوسری بار مشرف اور ان کے حاشیہ برداروں اور کاسہ لیسوں کے منصوبے بھسم کر ڈالے۔ اگلے الیکشن 2013ءمیں ہوں یا کسی فریاد اور افتاد کی صورت میں اس سے قبل جنرل کیانی ایک بار پھر شاید خفیہ ہاتھ کو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی اجازت نہ دیں۔ اس کا ادراک جی ایچ کیو کی طرف دست بستہ نظر کرم کے منتظر عادی سیاست کاروں کو بھی ہے۔ اس لئے اگلے الیکشن کے لئے ابھی سے صف بندیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی بینظیر سپورٹ سکیم کو کامیابی کی کلید سمجھ رہی ہے۔ زرداری صاحب حوصلے میں ہیں اور ساتھیوں کو تسلی دیتے ہیں کہ الیکشن کے لئے نگران حکومت بھی وہ بنائیں گے اور صدر بھی وہی ہوں گے۔ مسلم لیگ ن زرداری اور نواز شریف ایک ہیں کا طعنہ سننے کے باوجود اپنی کارکردگی سے زیادہ پیپلز پارٹی کی غلطیوں سے فائدہ اٹھانے کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ مسلم لیگ ق غیبی امداد کے سہارے اور اشارے کی منتظر ہے۔ ان تینوں بڑی پارٹیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی غیر محسوس طریقے سے بڑی خاموشی کے ساتھ متحدہ مجلسِ عمل کی شیرازہ بندی ہے۔ 2008ءکے انتخابات کے بعد متحدہ مجلس عمل بکھری تو تین میں رہی نہ تیرہ میں۔ الیکشن کے بعد اس کی بحالی کی کوششیں ضرور ہوئیں جن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مولانا فضل الرحمن سے حکومت سے علیحدگی کی شرط تھی۔ پرانے ساتھیوں کی باتوں میں آ کر اقتدار کو ٹھوکر مار دیں، پھر حضرت مولانا سیاستدان تو نہ ہوئے، بائیکاٹیے عمران اور قاضی ہو گئے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمن کو گیلانی کا دیا ہوا دھکا راس آ گیا ہے۔ شاید کان میں کسی نے پھونک بھی مار دی ہو کہ حضرت اگلے وزیراعظم آپ ہی ہیں۔ حکومت سے الگ ہونے کے بعد وہ پھسلتے تو ضرور دکھائی دیتے ہیں لیکن جلد سنبھل بھی جاتے ہیں۔ وہ اپوزیشن سیٹوں پر ہوتے ہوئے بھی کچھ کچھ حکومت میں بھی ہیں۔ خود کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں، اب عطاءالرحمن الیکشن کمشن کی پارلیمانی کمیٹی میں حکومتی رکن کے طور پر شامل ہو گئے ہیں۔ اب پراڈو بدستور استعمال کر سکتے ہیں۔ مجلسِ عمل بحال ہوتی ہے تو مولانا فضل الرحمن کی شمولیت کی راہ میں کوئی خاص امر مانع نہیں۔ 2002ءکے انتخابات میں مجلس عمل تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ اس نے امریکی جنگ کو کفر اور اسلام کی جنگ قرار دیکر ووٹر کو اپنی جانب مائل تھا۔ وہ جنگ پہلے سے بھی زیادہ بھیانک اور خوفناک شکل اختیار کر چکی ہے اس کے ساتھ ہی تحفظِِ ناموس رسالت کے حوالے سے مذہبی جماعتیں عام آدمی کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے سڑکوں پر ہیں۔ 9 جنوری کو کراچی میں عظیم الشان ناموسِ رسالت ریلی کے شرکاءکی تعداد اور جوش و خروش نے مجلس عمل کی بحالی کی راہیں کھول دی ہیں۔ گزشتہ روز پوپ کے بیان کے خلاف جس طرح مظاہرے ہوئے وہ بھی مجلس عمل کے پرانے رہنماﺅں کے لئے حوصلے کا باعث ہیں۔ اگر پرانی مجلس عمل نئے ایجنڈے کے ساتھ میدانِ عمل میں آ گئی تو پاکستانی سیاست کو نئے راستوں پر گامزن ہونے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ مجلس عمل بحال ہو کر الیکشن میں آتی ہے تو کسی بھی پارٹی کا مقدر خاک میں ملا سکتی ہیں۔ مجلس عمل میں ہر مسلک کے لوگ شامل ہیں ان کی طرح کوئی بھی پارٹی انتخابی مہم نہیں چلا سکتی۔ ان کی رسائی مسجد کے امام اور خطیب کے توسط سے ہر پاکستانی تک ہے۔


Friday, January 14, 2011

معیشت۔ زراعت۔ ٹیکس

جمعۃالمبارک ، 14 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
پاکستانی معیشت کے زوال اور انحطاط کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ امریکہ کی جنگ، کرپشن، لوٹ مار، بے ایمانی، بدعنوانی، کام چوری اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔ اس کے باوجود بھی پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہے، صحیح و سلامت اور مضبوط و مستحکم ہے۔ اس کا سب سے بڑا اور پہلا سبب ربِ کائنات کا خاص فضل و کرم اور دوسرا پاکستان کی زراعت ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ جس میں صنعت نے برق رفتاری سے ترقی کی۔ آج پاکستان میں جو ترقی و خوشحالی نظر آ رہی ہے اس میں زیادہ حصہ شاید انڈسٹری کا ہے۔ انڈسٹری بڑے شہروں سے ہوتی ہوئی قصبوں اور دیہات تک پھیل چکی ہے۔ صنعت کے بل بوتے پر ہمارا وطن ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا آسمان کی بلندیوں کو چھونے کو تھا کہ کرپشن اسے دیمک بن کر چاٹنے لگی۔ بدانتظامی اور بدنیتی قوم کی قسمت پر برق بن کر گر گئی۔ صنعت کی رگوں میں خون رواں رکھنے کے لئے بجلی اور گیس اولین ضرورت ہیں۔ آج ملک میں دونوں کی قلت کر کے صنعت کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ چھوٹے موٹے کاروبار بھی اندھیروں میں ڈوب گئے۔ ایسے نامساعد حالات میں ملکی معیشت کو زراعت نے سہارا دے رکھا ہے۔ گذشتہ یا موجودہ حکومتیں جو بھی دعوے کریں تعلیم اور صحت کے شعبوں سے بھی زیادہ زراعت کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود خدا کی رحمت سے زمیندار کسان اور کاشتکار دن رات ایک کر کے ملک کو اجناس اور لائیو سٹاک میں خودکفیل کئے ہوئے ہے۔ گندم گنا کپاس چاول اور دیگر اجناس ملکی ضروریات سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اتنی زیادہ کہ سنبھالے نہ سنبھلتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس کا فائدہ پیدا کرنے والے کو کم مڈل مین کو زیادہ ہوتا ہے۔ مڈل مین بھی پاکستانی ہے۔ اس نے کمائی کر لی تو کوئی بڑا جرم نہیں ظلم یہ ہے کہ بعض اوقات گندم جیسی جنس برآمد نہ ہونے سے گل سڑ جاتی ہے اور اکثر ضرورت سے زیادہ برآمد کر کے دگنے نرخ پر درآمد کر لی جاتی ہے۔ یہ مس مینجمنٹ نہیں۔ ایسا کرنے والوں پر دو جمع دو چار کی طرح صورت حال بالکل واضح ہوتی ہے۔ سب کچھ حرام خوری کے لئے کیا جاتا ہے۔ 
دو ہفتے قبل پیاز کی قیمت 80، 90 روپے فی کلو تھی آج 35 روپے ہے۔ جب سارا پیاز بھارت کو بیچ دیا تو قیمت چڑھ گئی۔ برآمد رُکی تو قیمت معمول پر آ گئی، پرسوں وزارت خوراک و پیداوار نے بھارت کو پیاز برآمد نہ کرنے کا عہد کیا کل وزیراعظم نے پھر ایکسپورٹ کی اجازت دیدی۔ آنیوالے کل نئی قیمتوں کا اندازہ لگا لیجئے اور ذمہ دار کا بھی تعین فرما لیجئے۔ 
زمینداروں پر ٹیکس لگانے کی بات ہوتی ہے ہزاروں ایکڑ ملکیت رکھنے والے جاگیرداروں کی تعداد لاکھوں ہزاروں نہیں سینکڑوں ہو سکتی ہے۔ ان سے آپ کتنا ٹیکس لے لیں گے۔ ایک جاگیردار سے ایک ارب لے لیں گے؟ وہ دس ارب قرض لے کر اپنا ’’خسارہ‘‘ پورا کریگا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ قرض لے کر معاف کرانا ہمارا کلچر ہے۔ ہو سکے تو جاگیریں توڑیں، ٹیکس کا نفاذ کوئی حل نہیں۔ کسی پر بھی چھوٹوں پر نہ بڑوں پر، غریبوں پر نہ امیروں پر۔ 
وزیر خزانہ حفیظ شیخ کہتے ہیں بڑے لوگوں سے ٹیکس وصولی ان کے بس کی بات نہیں۔ اس کے باوجود بڑے زور شور سے مطالبہ ہوتا ہے کہ امیروں پر ٹیکس لگایا جائے اول تو کسی میں ہمت نہیں کہ امیروں پر ٹیکس لگائے مروجہ حالات میں ایسا ہو بھی جائے تو لمبے ہاتھوں والے اسے خوش آمدید کہیں گے۔ ان پر ایک فیصد ٹیکس لگا تو وہ عام آدمی کی طرف 10 فیصد کی صورت میں منتقل کر دیں گے۔ چینی کی فی کلو قیمت پر ایک روپیہ ٹیکس لگا کر دیکھ لیں نتیجہ آپ کے سامنے آ جائے گا۔ صنعتوں کی بحالی ضرور اور ہر صورت ہونی چاہئے تاہم ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی زراعت پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ نہ صرف نئے ٹیکس لگانے کا نہ سوچا جائے بلکہ کسانوں کو آڑھتی کے ستم سے بچانے کے لئے بلاسود قرضے دئیے جائیں۔ خالص ادویات اور سستے بیج کی فراہمی یقینی بنائی اور پانی کی وافر فراہمی کا بھی اہتمام کیا جائے۔

Thursday, January 13, 2011

عمران خان کی سیاست

جمعرات ، 13 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان ـ
عمران خان کی تحریک انصاف اتنی نئی نہیں کہ جس کے بارے میں کہا جائے کہ ابھی تک پاکستانی اس سے متعارف نہیں ہوئے۔ نہ ہی اتنی پرانی ہے کہ پاکستانی اسے بوسیدہ قرار دے دیں۔ یہ جس بانکپن کے ساتھ پاکستان کے سیاسی آسمان پر نمودار ہوئی۔ اس کا پہلے دن کی طرح آج بھی جوبن برقرار ہے۔ اس میں کمی ہوئی نہ اضافہ۔ اس کی لیڈر شپ پر نظر ڈالی جائے تو عمران سے شروع ہو کر عمران پر ختم ہو جاتی ہے۔ بریگیڈیئر یوسف سے ملت پارٹی میں شمولیت کی وجہ پوچھی تو ان کا جواب تھا فاروق لغاری کی شرافت سے متاثر ہو کر ملت پارٹی جوائن کی۔ لہٰذا جب تک وہ ان کی شرافت اور دیانت کے قائل رہے دل و جان سے ساتھ نبھایا۔ تحریک انصاف سے وابستگان سے یہی سوال کیا جائے تو جواب ملتا ہے ’’عمران نے انتھک، کوشش جدوجہد اور دیانت سے شوکت خانم ہسپتال تعمیر کیا۔ تحریک انصاف تشکیل دی تو ہم اس میں چلے آئے‘‘۔ کھیل اور سیاست الگ الگ میدان عمل ہیں۔کھیل میں ذاتی کردار کی اتنی اہمیت نہیں جتنی سیاست میں ہے تاہم کھیل اور سیاست میں بروقت یا صحیح وقت پر صحیح فیصلے آپ کو دوسرں سے ممتاز اور منفرد کر دیتے ہیں۔ عمران کو کھیل کے میدان میں جو کامیابیاں حاصل ہوئیں سیاست میں اس کا عشر عشیر بھی ان کے حصے میں نہیں آیا۔ ان کی پارٹی میں یا تو کوئی بڑا لیڈر آیا نہیں اگر آیا تو تحریک انصاف میں آ کر چھوٹا ہو گیا اور صرف عمران خان ہی پارٹی کے واحد اور نمایاں لیڈر چلے آ رہے ہیں۔ عمران تحریک انصاف کے چیئرمین ہیں میڈیا کے چند لوگوں کے سوا کتنے لوگوں کو ان کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے نام سے واقفیت ہے؟ جسٹس (ر) وجیہہ الدین بڑی شخصیت ہیں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان کراچی میں تھے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جسٹس صاحب نے تحریک انصاف جوائن کرنے کا فیصلہ کیا یا عمران کراچی اس لئے گئے کہ وجیہہ صاحب نے ان کی پارٹی میں شامل ہونا تھا۔ تاہم جسٹس وجیہہ الدین نے اس موقع پر کہا کہ ’’آج ملک میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ روایتی سیاستدان ملکی ترقی میں رکاوٹ ہیں‘‘۔ تبدیلی کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں لیکن عمران خان میں سوائے کرپشن کے روایتی سیاستدانوں والے تقریباً تمام جواہر موجود ہیں۔ نئی نسل عمران خان کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہے۔ اس کا عمران کو فائدہ صرف متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ جس کا دور دور تک بھی کوئی امکان نہیں۔ عام ووٹر عمران کی طرف کیوں راغب نہیں؟ عام آدمی سیاستدانوں کی کرپشن اور کہہ مکرنیوں سے تنگ ہے۔ کہہ مکرنی کو خوبصورت پیرائے میں یوں بیان کیا جاتا ہے ’’سیاست میں کوئی کچھ حرف آخر نہیں ہوتا‘‘ عمران مشرف کے زبردست حامی رہے اور اتنے ہی بڑے دشمن بن گئے۔ نواز شریف سے کبھی ہاتھ ملاتے اور کبھی روٹھ جاتے ہیں۔ چودھری برادران کو مشرف کا ساتھ دینے پر کیا کیا کہتے رہے۔ اب ان کی چوکھٹ پر بھی چلے گئے۔ الطاف حسین اور ان کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا۔ الطاف حسین کو لندن سے نکلوانے کے بلند بانگ دعوے کئے پھر خاموشی اختیار کر لی۔ خاموشی اختیار کرنا تھی تو دشمنی مول لینے کی کیاضرورت تھی؟ عمران کے چاہنے والے ان کو پاکستان کی قیادت کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ عمران اپنی ادائوں پر غور کریں۔ پینترا بدل سیاست ان کے مستقبل کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوستوں کا مشورہ ہے کہ مستقل مزاجی سے کام لیں پارٹی کے اندر لیڈر شپ کو ابھرنے کا موقع دیں تو شاید عام آدمی مائل بہ تحریک انصاف ہو جائے

جمالی خربوزے


12-1-11....فضل حسین اعوان
گورنر ملک امیر محمد خان کچھ سیاستدانوں کو جمالی خربوزہ قرار دیا کرتے تھے۔ جمال والا یعنی خوبصورت نظر آنے والا خربوزہ۔ اس کا مطلب پوچھا گیا تو وضاحت کی یہ وہ اپوزیشن کے رہنما تھے۔ جو اسمبلی میں حکومت کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرتے تھے لیکن احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ جو تقریر کرنا ہوتی رات کو گورنر ہاؤس جا کر خود کلیئر کرواتے تھے۔ ایسے کاموں کیلئے گورنر ہاؤس کا فرنٹ گیٹ نہیں بیک ڈور استعمال ہوتا تھا۔ اس دور کے جمالی خربوزوں کی اولادیں بڑے سیاستدانوں کے روپ میں آج بھی جمالی خربوزوں کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اپوزیشن کا چھوٹا لیڈر ہو یا بڑا۔ آخرکار گوشت پوست کا انسان ہے۔ اس کی بھی کچھ ضروریات ہیں۔ کاروبار ہیں۔ اولاد اور عزیز رشتہ دار ہیں۔ صحرا کا شجر بے ثمر بن کر تو 5 سال نہیں گزارے جا سکتے۔ زندگی کی درخشانی ویرانی میں کیوں ڈھلتی رہے۔ کچھ فرنٹ ڈور سے ضمیر بیچ کر رسوا‘ کچھ بیک ڈور سے مول لگوا کر پارسا ٹھہرتے ہیں۔ انسان کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ قسمت بدل سکتی ہے۔ ترقی کی انتہاؤں کو چھو سکتا ہے۔ ستاروں پہ کمند ڈال سکتا ہے۔ لیکن فطرت نہیں بدل سکتی۔ ہم عمر کے جس حصے میں ہیں سیاستدانوں کو دیکھ رہے ہیں۔ کبھی اقتدار کے اندر کبھی باہر‘ قسمت تو بہت سوں کی بدلتی دیکھی۔ فطرت کتنوں کی؟ وزیر مشیر نوکریاں بیچتے ہیں تو اوپر والے عہدے‘ کروڑوں اور اربوں روپے میں‘ پی ایچ ڈی کی اصل ڈگریاں تک بے کار‘ انڈر میٹرک قومی اداروں کے چیئرمین‘ جعلی ڈگری کا بھی تکلف نہیں۔ کوئی اقتدار میں ہے یا اپوزیشن میں‘ عوامی مسائل کا واویلا ضرور‘ حل کیلئے کوئی کوشش نہ خواہش۔ اپنے مفادات کو ترجیح‘ جے یو آئی اور ایم کیو ایم نے حکومت کا ساتھ چھوڑا تو زرداری صاحب تمام معاملات سے الگ تھلک ہو کر کراچی میں جا بیٹھے وزیراعظم حمایت کے لئے کبھی لاہور کبھی کراچی‘ کبھی اس کے پاس کبھی اس کے‘ سب نے بیک زبان تیل کی قیمتیں واپس لینے کیلئے کہا‘ عوامی مسائل حل کرنے پر زور دیا۔ ن لیگ نے ایجنڈا سامنے رکھتے ہوئے تین جمع 45 دن کی ڈیڈ لائن دیدی۔ گیلانی صاحب نے تیل کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس لے لیا۔ ن لیگ کے ایجنڈے پر ہاں کہہ دی۔ اس پر سب شانت‘ ایم کیو ایم ’’آنے والی‘‘ جگہ پر لوٹ آئی۔ دوسرے ساتھ چھوڑنے والے بھی ’’بوڑھ تلے‘‘ آ جائیں گے۔ ق لیگ تیل کی قیمتیں کم ہونے پر شاداں ن لیگ ہاں پر فرحاں‘ حکمرانوں کے خلوص میں کھوٹ‘ سچ میں جھوٹ‘ نیت میں فتور اور بدستور‘ قول میں فریب‘ فعل میں دھوکہ ہے۔ تیل کی قیمتیں کم ہونے سے ہر چیز کی قیمت میں کمی ہونی چاہئے تھی۔ ایسا ہونے کے بجائے بہت سی چیزیں مزید مہنگی کر دی گئیں۔ مائع گیس کی قیمت میں اضافہ ہوا‘ بجلی کے نرخ دو فیصد بڑھانے کا اعلان‘ کرایوں میں کمی ہوئی نہ روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں کم‘ الٹا سب سے بڑے صوبے میں غیر معینہ مدت کیلئے صنعتوں کو گیس کی سپلائی بند کر دی گئی۔ کہاں گئے صنعتوں کو ہفتے میں 5 دن گیس کی فراہمی کے وعدے؟ سی این جی سٹیشن ہفتے میں دو دن بند رکھنے کا شیڈول تھا اچانک اس میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ گھریلو صارفین پریشان اکثر علاقوں میں صرف دو گھنٹے گیس فراہم کی جاتی ہے۔ سی این جی سٹیشن بند‘ صنعتوں کی سپلائی منقطع پھر گیس کہاں جاتی ہے۔ سردیوں میں بجلی کی بے محابا لوڈشیڈنگ‘ سیاسی لیڈر شپ کو اس کا احساس کیوں نہیں؟ 
پیپلز پارٹی رنگ و نور اور روشنیاں پھیلانے کا عہد لے کر اور وعدے دے کر اقتدار میں آئی اس نے ہر آنگن میں خاک اور ہر دامن میں راکھ بھر دی۔ ہر سو تاریکیاں پھیلا دیں۔ اپوزیشن نے مل کر حکومت کو تیل کی قیمتیں واپس لینے پر مجبور کرکے ثابت کر دیا کہ وہ حکومت کا قبلہ درست کر سکتی ہے لیکن یہ خاموش ہے۔ کیا حکومت کو بحران سے نکالنے کیلئے اس پر زور دینا ایک ڈرامہ تھا؟ عوام کا ایک ایک لمحہ اذیت میں گزر رہا ہے۔ نواز شریف 45 دن انتظار کریں گے۔ ساتھ فرما دیا الٹی میٹم کا لفظ ان کی لغت کا حصہ نہیں۔ یعنی 45 دن کے بعد بھی حکومت حوصلہ نہ ہارے۔ وزیراعلیٰ بلتستان مہدی شاہ کے تجزیہ پر غور فرمائیے ’’ن لیگ کے 45 دن ختم ہونے میں 2 سال لگ سکتے ہیں۔‘‘ میاں محمد نواز شریف ان کے برادر خورد شہباز شریف وفاقی حکومت کی وعدہ خلافی پر سیخ پا ہیں کہ پنجاب کو ہفتے میں 5 دن گیس کی فراہمی پر قدغن لگا دی گئی ہے۔ گیلانی بحران سے نکل کر مطمئن‘ عوام بدستور اذیت میں ہیں اس پر اپوزیشن پرسکون کیوں؟ یہ جمالی خربوزوں سے بھی بڑھ گئے زوالی اور لا ابالی خربوزے ہو گئے۔

Tuesday, January 11, 2011

آر ایس ایس کی لیڈر شپ کا اعتراف گناہ

 منگل ، 11 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
18 فروری 2007 کو بھی حسب معمول شام، صبح ہونے کے لئے ڈھلی تھی۔ دنیا میں رات کو سینکڑوں ٹرینیں مسافروں کو اپنی آغوش میں لئے رواں رہتی ہیں۔ دہلی سے لاہور آنیوالی سمجھوتہ ایکسپریس کے ہزار کے قریب مسافر بھی اپنے پیاروں سے ملنے کے خواب سجا کر برتھوں اور سیٹوں پر بڑی بے فکری سے سو رہے تھے یا اونگھ رہے تھے۔ گاڑی بھارتی فوج کی نگرانی میں اندھیروں کو چیرتے ہوئے ارض پاک کی طرف منزل پہ منزل مارتے چلی آ رہی تھی۔ چلتی ٹرین میں دو دھماکے ہوئے، ساتھ ہی آگ لگ گئی۔ موت نے کئی مسافروں کو آنکھ تک کھولنے کی مہلت بھی نہ دی۔ بہت سے بے بسی سے موت کو اپنی طرف بڑھتے دیکھنے پر مجبور تھے۔ ان کے لئے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا کر جان بچانے کا ایک موقع موجود تھا لیکن گاڑی کے محافظوں نے دروازے لاک کر دیے ہوئے تھے۔ اس سانحہ میں بچوں اور عورتوں سمیت 68 افراد موت کی لکیر پارکر گئے۔ ان میں زیادہ تر مسلمان اور پاکستانی، چند ایک ہندو تھے۔ رات دو بجے لوگوں نے جیسے تیسے دو بوگیوں میں موجود سڑی ہوئی لاشوں اور زخمیوں کو دروازے کھڑکیاں کاٹ کر نکالا۔ یہ دھماکے ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ نے کرنل پروہت سے مل کر کئے۔ بوگیوں میں ہندو بھی موجود تھے۔ لیکن ہندو انتہا پسندوں کے بوگیوں میں رکھے گئے بموں کو ہندو مسلم کی پہچان نہیں تھی۔ کرنل پروہت تو سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے کرانے پر پہلے ہی گرفتار ہو چکے ہیں۔ دو روز قبل پنڈت آسیم نند نے مجسٹریٹ کے سامنے سمجھوتہ ایکسپریس مالیگاؤں اور اجمیر دھماکوں کا اعتراف کیا ہے۔ پنڈت آسیم نند آر ایس ایس کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ہیں۔ وہ دھماکوں کے الزام میں ہی جیل میں تھے۔ کہتے ہیں دہشت گرد کا ضمیر ہوتا ہے نہ ایمان اور دھرم۔ بھارتی تفتیشی ادارے اقلیتوں، ان کی عبادت گاہوں اور املاک پر دہشت گردی کرنے والے ملزموں پر سختی نہیں کرتے۔ اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں کے حوالے سے معاملہ مختلف ہے۔ ان کو جھوٹے الزام میں ملوث کر کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پنڈت آسیم نند نے تشدد یا کسی خوف سے اعترافِ گناہ نہیں کیا، اس کے اندر ضمیر نام کی کوئی رمق موجود تھی، خود اس کا کہنا ہے ’’جیل میں بم دھماکوں کا ایک ملزم عبدالکلیم بھی موجود تھا جس پر جھوٹا الزام لگایا گیا اس پر تفتیشی ادارے انسانیت سوز تشدد کرتے تھے یہ نوجوان انسانی ہمدردی کے تحت میرا خیال رکھتا، اپنے گھر سے آیا کھانا مجھے کھلاتا، پانی پلاتا، اس کے حسنِ سلوک اور سچائی سے متاثر ہو کر میں نے اعتراف جرم کیا۔ مجھے معلوم ہے اس جرم کی سزا موت ہے، میں اس کے لئے تیار ہوں‘‘ پنڈت نے آر ایس ایس کے اندریش کمار اور تنظیم کے پرچارک سنیل جوشی کو بھی دہشت گردی اور تخریب کاری میں ملوث قرار دیا ہے۔ پنڈت آسیم نند کا اصل نام جتن چٹر جی ہے جس نے اپنے ضمیر کی آواز پر آر ایس ایس کو مسلمہ دہشت گرد تنظیم ثابت کر دیا ہے۔ 
آر ایس ایس کے کارکنوں کی تعداد تنظیم کی طرف سے کبھی ظاہر نہیں کی گئی تاہم بھارتی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندازوں کے مطابق ان کی تعداد 25 سے 60 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ بظاہر آر ایس ایس کا مقصد تعلیم و صحت جیسے فلاحی کاموں کا فروغ ہے لیکن اس کے اصل مقاصد مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے یا مسلمانوں کو مکانا ہے۔ یہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ساتھ مل کر مکتی باہنی کی طرز پر کارروائیاں بھی کرتی ہے۔ 
ممبئی دھماکوں میں پہلی گولی چلنے کے ساتھ ہی پاکستان پر بھارت نے الزام لگایا اور اقوام متحدہ میں معاملہ لے جا کر متعدد تنظیموں کو کالعدم قرار دلایا، حافظ محمد سعید اور بہت سے رہنماؤں کو گرفتار اور نظر بند کروا دیا حالانکہ ممبئی دھماکے بھارت کا اپنا رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔ اب آر ایس ایس کے رہنماؤں نے اپنی تنظیم کو خود دہشت گرد ثابت کر دیا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ آر ایس ایس پر پابندی لگوائی جائے، کالعدم قرار دلایا جائے، اس کی پوری قیادت اندر ہو اور جیلوں میں سڑتی رہے۔ یہ کام خالی ہلکی پھلکی بیان بازی سے نہیں عالمی سطح پر تہلکہ مچانے سے ہو گا۔ ہماری خوابیدہ حکومت بھی اقوام متحدہ سے رجوع کرے جس طرح بھارت نے ممبئی حملوں کے بعد کیا تھا۔ وزارت خارجہ کے حکام سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی بھی ہیں ان میں پاکستانیت نظر بھی آنی چاہیے۔ گرد نہیں طوفان بن کر اپنا کیس اٹھائیں جو ثابت شدہ بھی ہے اور مضبوط بھی۔


Monday, January 10, 2011

10-1-11کرپشن … ایجنڈے کا ایک مزید اہم نکتہ

فضل حسین اعوان
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ لسٹ کے مطابق گزشتہ سال 2009-10 کے مقابلے میں رواں سال 2010-11 میں کرپٹ ممالک کی لسٹ میں صومالیہ افغانستان کو پیچھے چھوڑ کر پہلے نمبر پر آ گیا۔ ٹاپ ٹن کرپٹ ممالک کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ (1) صومالیہ، (2) میانمار، (3) افغانستان، (4) عراق، (5) ازبکستان، (6) ترکمانستان، (7) سوڈان، (8) چاڈ، (9) برونڈی، (10) گیانا۔ گو اندھیر نگری چوپٹ راج کے باوجود پاکستان ٹاپ ٹن میں نہیں تاہم ان دس کرپٹ ترین ممالک میں اکثریت مسلمان ممالک کی ہے۔ گزشتہ دنوں برطانوی انٹرفیتھ تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں سالانہ 5 ہزار غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں بھی اسلام قبول کرنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ لوگ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ ہونے پر اسلامی تعلیمات کی طرف مائل ہوئے۔ اس دوران اسلام کی حقانیت واضح ہوئی تو اسلام قبول کر لیا۔ اگر 57 اسلامی ممالک اپنے قوانین قرآن و سنہ کے مطابق نافذ کر لیں اور ہم مسلمان اسوہ رسولؐ کو عملی زندگی میں اپنا لیں تو جہاں خود بہت سے مصائب سے بچ سکتے ہیں وہیں ہمارے کردار و عمل کو دیکھ غیر مسلم مزید تیزی سے اسلام قبول کرنے لگیں گے۔ 
چند سال قبل دنیا کے دس کرپٹ ترین حکمرانوں کی ان کے کرپشن سے بنائے گئے اثاثہ جات سمیت ایک فہرست جاری کی گئی۔ ان ٹاپ ٹن میں ٹاپ پر بھی ایک مسلم حکمران انڈونیشیا کے محمد سہارتو تھے۔ یہ 1967ء سے 1998ء تک صدر رہے اس دوران 35 ارب ڈالر تک کی لوٹ مار کی۔ فلپائن کے صدر مارکوس 10 ارب ڈالر کی کرپشن کے ساتھ دوسرے، زائرے کے صدر موبوتو سیکو 5 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ چوتھے نمبر پر نائجیریا کے صدر ثانی اباچہ، پانچویں صدر سربیا میلوسووچ، چھٹے صدر ہیٹی جین کلاڈا، ساتویں صدر پیرو البرٹو، آٹھویں وزیراعظم یوکرائن پیولو لازارینو، نویں صدر نکاراگوا آرنالڈو، دسویں صدر فلپائن جوزف اسٹراڈا۔ اگر یہ لسٹ آج ترتیب دی جاتی تو سابق صدر مشرف کرپٹ ترین حکمرانوں میں دوسرے نمبر پر ہوتے کیونکہ وہ اکیلے ہی امریکی امداد کے 10 ارب ڈالر ہضم کر گئے تھے۔ 2013 کے بعد غیر جانبداری سے مرتب کردہ فہرست میں شاید عالمی رینکنگ میں سوہارتو دوسرے اور مشرف تیسرے نمبر پر آ جائیں۔ 
آج ہم سب سے بڑی اور موذی بیماری کرپشن کا شکار ہیں۔ یوں تو چند ایک کے سوا تمام وزیر مشیر عوامی نمائندے اور بیورو کریٹس بدعنوان ہیں تاہم دو بڑوں کی طرف بڑی بڑی کرپشن کے حوالے سے انگلیاں اٹھتی رہتی ہیں۔ دو میں پہلے نمبر ایک کون ہے خُدا بہتر جانتا ہے۔ تاہم آج کل گیلانی صاحب کا نام خوب چمک رہا ہے۔ خود ان کے اپنے برطرف شدہ وزیر جناب اعظم سواتی نے ان کو پاکستان کی تاریخ کا کرپٹ ترین وزیراعظم قرار دیا ہے۔ اس پر شرمیلا فاروقی کا سوال بجا ہے کہ سواتی کو گیلانی صاحب کی کرپشن برطرفی کے بعد ہی کیوں یاد آئی؟ یہ سوال اپنی جگہ، اگر کرپشن ہوئی ہے تو اس کا جواب تو بہرحال دینا پڑے گا۔ گیلانی صاحب کے اہل خانہ کا نام بھی کرپشن کے حوالے سے لیا جاتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ وزیراعظم اپنی اولاد کو مالدار بنانے کے لئے آباء کا نام داغدار کر رہے ہیں۔ صدارت اور وزارت عظمٰی کے مناصب کا تقاضا ہے کہ ان پر متمکن شخصیات کا کردار کرسٹل کلیئر ہو۔ بعض اوقات الزام برائے الزام ہو سکتا ہے لیکن جس الزام سے پگڑی اچھلتی ہو، خاندان کی عزت و عظمت پر داغ لگ رہا ہو اس سے پیچھا ضرور چھڑانا چاہئے۔ وزراء حضرت بشمول دو بڑوں کے اپنے اوپر کرپشن کے الزام لگانے والوں کو عدالت میں لے جائیں۔ الزام غلط ہوں تو الزام لگانے والوں سے ہرجانہ وصول کیا جائے۔ خاموش بیٹھ جانے سے ثابت ہو جائے گا کہ الزامات درست ہیں۔ اگر درست ہیں تو ان کو اعلیٰ ترین مناصب پر جلوہ گر رہنے کا کوئی حق نہیں نوازشریف اپنے ایجنڈے میں بڑوں سے کرپشن کا مال نکلوانے کے نکتے کو سرفہرست رکھیں۔

Sunday, January 9, 2011

کونسا کتا اچھا

اتوار ، 09 جنوری ، 2011
فضل حسین اعوان
حضرت صاحب بول کیا رہے تھے‘ ہونٹوں سے پھول جھڑ رہے تھے۔ مجمع پر سحر طاری تھا۔ سانسوں کی آواز تک نہیں آرہی تھی۔ ان کی دعاؤں کی طرح ان کے وعظ میں بھی اثر تھا۔ جو جس خواہش کے ساتھ ان کے پاس آیا وہ خدا نے پوری کی۔ وہ دنیاوی زندگی سے تقریباً کٹ چکے تھے۔ خود کو خدا اور اس کے بندوں کی خدمت کیلئے وقف کر دیا تھا۔ جو ایک بار حضرت صاحب کی درگاہ پر آیا پھر ان کا ہو کر رہ گیا۔ آج بھی وہ توکل علی اللہ کی بات کر رہے تھے۔ حسب معمول اپنی بات ختم کی‘ حاضرین پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور خاموش بیٹھ گئے۔ سامنے بیٹھا ایک شخص اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے گویا ہوا۔ ’’حضرت صاحب میں یہاں پہلی بار آیا ہوں لیکن مجھے پتہ ہے کہ چند سال قبل آپ بڑے سرمایہ دار تھے ایک کارخانے کے مالک پھر یہ انقلاب کیسے آگیا؟ حضرت صاحب نوجوان کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنی روداد بیان کرنے لگے ’’واقعی میں ایک بڑی فیکٹری کا مالک تھا۔ خدا کا بڑا کرم تھا۔ پانچ چھ سو مرد و خواتین ورکر کام کرتے تھے۔ ایک روز میں فیکٹری کے مین گیٹ پر کھڑا تھا کہ ایک کتا اگلی ٹانگوں کے سہارے اپنے وجود کو گھسیٹتا ہوا فیکٹری کے اندر چلا آرہا تھا۔ اس کی پچھلی ٹانگوں سے خون رس رہا تھا۔ یوں لگتا تھا اس کی ٹانگیں کسی گاڑی تلے آکر کچلی گئی ہیں۔ دفعتاً میرے دماغ میں خیالات کا ایک جھماکا کوندا‘ میں نے سن رکھا تھا خدا کیڑے کو پتھر میں بھی روزی دیتا ہے آج اس مقولے یا محاورے کو آزمانے کا موقع تھا۔ دیکھتے ہیں خدا اس معذور کتے کو روزی کیسے پہنچاتا ہے۔ زخمی کتا فیکٹری کے اندر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور کتا فیکٹری کے اندر آیا اور زخمی ساتھی کے قریب چلا گیا۔ اس کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا تھا۔ اس کو اچھی طرح چبا کر نیم بے ہوش کتے کے منہ کے آگے کر دیا۔ زخمی کتے نے آنکھیں کھولیں اور ٹکڑا بغیر چبائے نگل لیا۔ اس کے بعد تندرست کتا باہر چلا گیا تاہم چند منٹ بعد واپس آگیا۔ اب اس نے اپنی دم معذور کتے کے منہ کے آگے کی جسے وہ چاٹنے لگا دراصل کتا اپنی دم پانی سے بھگو کر لایا تھا۔ اپنی دانست میں وہ اپنے ہم جنس کو پانی پلا رہا تھا۔ چند ہفتوں میں زخمی کتا صحت یاب ہو گیا۔ اس دوران اس کا ساتھی کتا ہر روز بلاناغہ اس کے کھانے پینے کا اہتمام کرتا رہا… میں نے زخمی کتے کو کارخانہ قدرت سے روزی ملتے دیکھ کر استدلال لیا کہ جب خدا نے روزی دینی ہی ہے تو دنیا داری‘ ٹنشن‘ پریشانی اور جھنجٹ کی کیا ضرورت‘ اللہ پر توکل کرتے ہوئے کاروبار بند کیا خدا سے لو لگا لی خدا نے مریدوں اور عقیدت مندوں کی وساطت سے روزی میں فراخی فرما دی۔ روزانہ جو لوگ آتے ہیں وہ بھی کھاتے ہیں میں بھی‘‘ مجلس میں بیٹھے ایک اور نوجوان نے بڑے احترام اور دھیمی آواز میں کچھ عرض کرنے کی استدعا کی۔ اذن پر گویا ہوا ’’حضور آپ نے زخمی اور معذور کتے سے استدلال لیا جو اسے کھانا لا کر دیتا تھا اس سے کیوں نہیں؟ یہ فرما دیجئے کہ آپ کس کتے کو اچھا سمجھتے ہیں۔ کھانے والے کو یا کھانا لا کر دینے والے کو؟‘‘ حضرت صاحب کے دماغ میں ایک بار پھر اسی طرح خیالات کا جھماکا کوندا جس طرح زخمی کتے کو پہلی نظر میں دیکھ کر کوندا تھا۔ واقعی کھانا لا کر دینے والا کتا تو کل والے کتے سے اچھا تھا۔ حضرت صاحب نے پہلی بار سوچا کہ میرے ورکرز کا نہ جانے کیا بنا ہو گا میں نے دنیا داری چھوڑی تو ان کی نوکریاں چھوٹ گئیں۔ اف خدایا! اس کے ساتھ ہی حضرت صاحب نے پھر سے اپنا کاروبار شروع کیا۔ ورکرز ان سے خوش وہ ورکرز سے مطمئن۔
آپ عوامی نمائندے ہیں۔ بیورو کریٹ یا بزنس مین‘ خدا نے آپ کو دولت ثروت اور سطوت سے نوازا ہے آپ سرکاری علاج اور بہت سی مراعات کے مستحق ہیں۔ ذرا سوچئے آپ کے وطن کے عام آدمی کی کیا حالت ہے؟ ان کیلئے ہسپتال سکول و مدارس اور دیگر اداے بنائیے۔ کسی غریب کی مدد کیجئے۔ کسی کی بیٹی کی شادی کا اہتمام کیجئے۔ ایسا کاروبار کیجئے جس سے منافع بھی ہو اور کئی لوگوں کی روٹی روزی کا بندوبست بھی۔ (ختم شد)


Friday, January 7, 2011

کونسا کتا اچھا

فضل حسین اعوان
8-1-11
ہمارے ہاں کُتے کی توقیر اور بے توقیری کے معاملے میں دو انتہائیں ہیں۔ ایک طرف اسے نجس اور نفرین سمجھا جاتا ہے تو دوسری طرف کئی لوگ اسے بڑے شوق سے پالتے اور بڑے اہتمام سے اس کی ”ٹہل سیوا“ کرتے ہیں۔ ایسے ناز و نعمت کم کم کتوں کے حصے میں آتے ہیں۔ زیادہ تر کے ساتھ کتوں جیسی ہی ہوتی ہے، کسی نے پتھر مار دیا کسی نے دھتکار دیا۔ کتوں کی بہتات ہو گئی، ان کی آوارگی اور کاٹنے کی شکایتیں عام ہوئیں تو کارپوریشن نے جہاں اور جیسی حالت میں پایا پھڑکا دیا۔ وہ کتا آج بھی نہیں بھولتا جس نے مجھے سکول سے آتے ہوئے پنڈلی سے بڑی خاموشی سے آ کر پکڑ لیا۔ پنڈلی پر دانت چُبھے اور ”فانٹانوالہ“ پاجامہ بھی پھٹ گیا۔ یہ کوئی اجنبی نہیں جانا پہچانا کتا تھا۔ درجن بھر آوارہ کتوں میں سے ایک۔ کبھی اِس دَر اور کبھی اُس گھر۔ اس سے قبل اس نے کسی کے ساتھ بدمعاشی نہیں کی تھی۔ ٹانگ چھڑانے کے لئے بستے سے تختی نکالی گویا میان سے تلوار نکلتے دیکھ کر کتے نے ٹانگ چھوڑی اور بڑی شانِ بے نیازی سے ایک طرف چل دیا تاہم وقفے وقفے سے پیچھے مڑ کر ضرور دیکھتا جاتا تھا۔ میں گھر گیا غصے سے دماغ چکرا رہا تھا انتقام کا جذبہ دماغ میں پٹاخے چلا رہا تھا۔ اپنے حصے کی روٹی اٹھائی اور کتے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اس نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا تھا کہ گاﺅں چھوڑ جاتا۔ گاﺅں کی ایک نکر پر کوڑے کے ڈھیر پر محوِ استراحت مل گیا۔ مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر بھاگنے کے لئے پر تول رہا تھا کہ میں نے روٹی کا ٹکڑا اس کی طرف اچھال دیا۔ وہ اس پر لپکا جھپٹا اور پل بھر میں اچک کر نگل گیا۔ابھی آدھی سے زیادہ روٹی میرے ہاتھوں میں تھی۔ میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پھینکتا گھر کی طرف چل دیا۔ کتا پیچھے پیچھے ٹکڑے کھاتا آ رہا تھا اسے گھر لا کر مزید ایک پوری روٹی بھی کھلا دی۔ ان دنوں گاﺅں میں بجلی نہیں تھی روشنی کے لئے لالٹین یا دیا استعمال کیا جاتا تھا۔ میں نے دیا اٹھایا اس کا ڈھکن اتارا اور اس میں سارا تیل کتے کی دم پر انڈیل دیا۔ وہ شاید تیسری روٹی کی آمد کا منتظر تھا۔ تیل کی ٹھنڈک سے چھلانگیں لگاتا ہوا بھاگ گیا تاہم چند منٹ بعد دوبارہ نہ جانے کس لالچ میں چلا آیا۔ اب میں نے چھابے میں پڑی تیسری اور آخری روٹی بھی اس کے سامنے پھینک دی۔ ساتھ ہی جیب سے ماچس نکالی، تیلی اس کی آنکھوں کے سامنے جلائی اور پھلجھڑی کی طرح اس کی دم پر پھینک دی، جس سے دم یکدم مکمل طور پر آگ کی لپیٹ میں آ گئی کتا ”چانگریں “مارتا، شعلہ فشاں و شعلہ زن دم کے ساتھ گلیوں سے ہوتا ہوا کھیتوں کے بیچوں بیچ جِدھر منہ ہوا بھاگتا چلا گیا۔ شاید غیرت کی کوئی رمق اس کے اندر موجود تھی یا ضمیر زندہ تھا وہ اس کے بعد گاﺅں نہیں آیا۔ 
کہتے ہیں جس گھر میں کتا ہو، اس میں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا تاہم کچھ کنڈیشنز کے ساتھ کتا رکھنے کی اجازت بھی ہے۔ اصحابِ کہف کے ساتھ موجود کتے کی فضیلت مسلمہ ہے۔ آج اس کتے کا کمال ملاحظہ جس کا ذکر الدر رالکامن حصہ تین صفحہ 202 پر ہے، کسی مہربان نے عربی سے ترجمہ کر کے بھجوایا ہے۔ 
”منگولوں کو عیسائی بنانے کے لئے مشنریز انکے قبیلوں میں بڑے جوش و خروش سے پرچار کیا کرتے تھے، اپنی عیسائی بیوی ظفر خاتون کی خوشی اور خواہش کے سامنے مجبور ہلاکو ان کی ہر قسم کی معاونت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی منگول سردار کی تاج پوشی کی ایک بہت بڑی تقریب میں سرکردہ عیسائی مبلغین بھی شریک ہوئے۔ ایک مبلغ نے موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھانے کی خاطر وعظ و نصیحت شروع کی اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے لگا۔ وہیں پر ایک شکاری کتا بھی بندھا ہوا تھا۔ جیسے ہی اس بدبخت نے ذات اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دشنام طرازی شروع کی، کتے نے ایک زقند بھر کر اس کی ناک اور منہ کو بھنبھوڑ ڈالا کافی تگ و دو کے بعد کتے کو علیٰحدہ کیا گیا۔ مجمع میں سے کچھ لوگوں نے اس عیسائی سے پوچھا کہیں کتے نے تیری اس حرکت کی وجہ سے (نعوذباللہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے) تو تجھ پر حملہ نہیں کیا؟
عیسائی نے کہا بالکل نہیں، اصل میں یہ ایک غیرت مند کتا ہے، میں نے بات کرتے ہوئے اس کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا تھا، اس نے سمجھا میں اسے مارنا چاہتا ہوں، اس لئے یہ مجھ پر حملہ آور ہو گیا۔ 
اس کے بعد مشنری نے دوبارہ شانِ رسالت میں گستاخی شروع کر دی، اب کی بار کتنے نے رسی تڑا کر اس کی گردن میں دانت گاڑ دئیے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک وہ مر نہ گیا۔ موقع پر موجود یا اس واقعہ کو سننے والے لوگوں میں سے چالیس ہزار لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ 
(جاری ہے) 

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام


فضل حسین اعوان
7-1-11
NOT PUBLISHED

بعض لوگ اپنی خواہش کا سوال کی صورت میں اظہار کر رہے ہیں کہ ممتاز قادری کو سلمان تاثیر کے قتل کے فوری بعد ساتھی محافظوں نے قتل کیوں نہیں کر دیا۔ اگر ان لوگوں کی خواہش کے مطابق اوپر نیچے دو قتل ہو جاتے تو تیسرا ساتھ ہی حقائق کا قتل بھی ہوتا۔ ملزم کا کوئی طالبان سے ناطہ جوڑتا کوئی القاعدہ سے۔ کوئی اسے ایجنسیوں کا پروردہ قرار دیتا کوئی را اور موساد کا ایجنٹ۔ ہر معاملے کو مفاداتی چشمے سے دیکھنے کے عادی کچھ مہربان تصویر پوری طرح واضح ہونے کے باوجود اسے سیاسی قتل ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ ذمہ دار لوگوں کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ ملزم زیر حراست، اس کا ریمانڈ مل گیا۔ حکومت آپ کی اپنی، حقائق منظر عام پر لانے کے لئے جوڈیشل کمشن سے بہتر کوئی فورم اور پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا۔ کسی کو دوش دیں نہ جانبداری کا الزام خود پہ لیں۔ عدالتی کمشن کے ذریعے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے دیں۔ 
18 کروڑ لوگوں میں سے صرف ایک نے، خود اس کی اپنی سٹیٹمنٹ کے مطابق گورنر صاحب کو 295 سی کو کالا قانون کہنے پر قتل کیا۔ اس پر خودساختہ دانشمندوں اور خود پرداختہ عقلمندوں نے معاشرے میں عدم برداشت کلچر کے فروغ کا شور شرابہ اور واویلا شروع کر دیا۔ ان عقل کے سقراطوں اور حکمت کے بقراطوں کو کینیڈی، مہاتما گاندھی، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، اکینو، شاہ فیصل، جمال عبدالناصر، انور السادات، شیخ مجیب الرحمن بمعہ خاندان، شاہ بریندرہ بشمول اہل خانہ کے زمین و آسمان کو دہلا دینے والے قتلوں میں تو عدمِ برداشت کا کوئی پہلو نظر آتا۔ سلمان تاثیر کے قتل سے پورے معاشرے میں سمائی عدم برداشت نظر آ رہی ہے۔ بہت سوں کی سوئی اختلافِ رائے کے احترام پر اٹکی ہوئی ہے.... ایک طبقہ این آر او کو قومی مفاد میں دوسرا اسے کرپشن کا تحفظ قرار دیتا ہے۔ ایک گروپ ٹیکسوں کے نفاذ کا حامی دوسرا مخالف ہے۔ ایک گروہ امریکہ سے دوستانہ تعلقات کا قائل دوسرا چین کے ساتھ دوستی پر مائل ہے۔ اسے اختلافِ رائے کا نام دیا جا سکتا ہے۔ جنرل ضیاءنے بھٹو کو تخت سے اتار کر تختہ دار تک پہنچا دیا۔ مشرف نے نوازشریف کو روشنیوں میں نہائے اور بقعہ نور بنے وزیراعظم ہاﺅس سے اٹھوا کر اندھیری کوٹھڑی، پھر موت کی موری میں پھینک دیا۔ نوازشریف کے ناک کا بال حسین حقانی بینظیر بھٹو کی قابلِ اعتراض تصاویر ٹمپر کروا کے جہاز کے ذریعے برسواتا رہا۔ چند روز قبل چودھری نثار نے جو کچھ الطاف حسین اور وسیم اختر اور حیدر عباس رضوی نے نواز و شہباز شریف کے بارے میں کہا، کیا یہ معاملات بھی اختلافِ رائے کے زمرے میں آتے ہیں۔ کچھ حکومتی مبصرین، سیاسی اکابرین، اینکر پرسن اختلافِ رائے پر پُرزور اور پرجوش دلائل دیتے ہیں تو ان کے منہ سے جھاگ بہنے لگتی ہے۔ اختلافِ رائے اور دریدہ دہنی اور بدزبانی میں فرق یہ خود نہیں کر سکتے یا نہیں کرنا چاہتے، بُرا بھلا معاشرے کو کہہ رہے ہیں۔ سلمان تاثیر توہینِ رسالت قانون میں تبدیلی کی بات کرتے تو یقیناً بات ان کے قتل تک نہ پہنچتی۔ انہوں نے تحفظ ناموسِ رسالت قانون کو کالا قانون قرار دیا جس سے محبانِ رسول کے جذبات مجروح ہوئے۔ پھر گورنر صاحب کے موقف میں ان کو این جی اوز، جدت پسندوں کی طرف سے تھپکی ملنے پر سختی آتی گئی۔ سلمان تاثیر کے قتل کا اصل ذمہ دار یہی طبقہ اور حلقہ ہے جس نے ان کو اہل وطن کے شدید جذبات کا ادراک کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے، آسیہ کو مظلوم ثابت کیا اور اس کی رہائی کی گنجلک ڈور سلمان تاثیر کو تھما دی۔ غامدی صاحب کی سوچ ملاحظہ کیجئے فرماتے ہیں گورنر کی بات کا جواب دلیل سے دیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے ناموسِ رسالت ایکٹ کو کالا قانون قرار دیا پھر اس پر ڈٹ بھی گئے۔ آپ اس کے جواب میں کیا دلیل دیں گے؟ سلمان تاثیر قتل کر دئیے گئے ان کے لواحقین پر قیامت گزر گئی ہر پاکستانی ان کے سوگوار خاندان کے ساتھ ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے۔ اب بھی کچھ لبرل طبقے ایسی باتیں کر رہے ہیں جو توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں۔ مذہبی معاملات خصوصی طور پر توہین رسالت کے حوالے سے نہایت ہی احتیاط کی ضرورت ہے
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
یہ کہہ کر رحمن ملک نے ہر مسلمان کے جذبات کو زبان دیدی ”میرے سامنے کوئی شانِ رسالت میں گستاخی کرے تو اُسے گولی مار دوں“ علمائے کرام کا جنازہ پڑھانے سے انکار لبرل جدت پسندوں اور روشن خیالوں کے لئے واضح پیغام ہے۔